جرح و تعدیل: ایک تفصیلی مطالعہ

جرح و تعدیل اسلامی علمِ حدیث کا ایک بنیادی اصول ہے، جس کے ذریعے محدثین احادیث اور روایت کو بیان کرنے والے راویوں کے کردار، دیانت، اور حافظے کی جانچ پڑتال کرتے ہیں۔ یہ اس لیے ضروری ہے تاکہ یہ طے کیا جا سکے کہ کوئی حدیث قابلِ قبول ہے یا نہیں۔ تاریخی و احادیث کی کتب میں بہت سی روایات پائی جاتی ہیں۔ کُچھ ضعیف تو کچھ صحیح۔ اب کون سی حدیث یا روایت کو حجت بنانا ہے، اور کون سی روایات کو ترک کرنا ہے، اس کے لیے آئمہ کرام نے ان گنت محنت سے اُصول بنائے ہیں۔

جرح و تعدیل کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے؟

جرح و تعدیل کی ضرورت درج ذیل وجوہات کی بنا پر پڑتی ہے:

  1. حدیث کی صحت کی جانچ: جرح و تعدیل کے بغیر صحیح اور ضعیف احادیث میں فرق کرنا مشکل ہو جاتا ہے، اور امت کو غلط معلومات پہنچنے کا خدشہ رہتا ہے۔
  2. روایات کی چھان بین: ہر راوی کا دیانت دار اور ثقہ ہونا ضروری ہے تاکہ دین میں تحریف نہ ہو اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اصل تعلیمات محفوظ رہیں۔
  3. موضوع (من گھڑت) احادیث سے بچاؤ: کچھ لوگ دانستہ یا نادانستہ طور پر جھوٹی روایات بیان کر سکتے ہیں، اس لیے ان کی حقیقت جانچنا ضروری ہے۔
  4. دین کی حفاظت: اگر جرح و تعدیل کا اصول نہ ہوتا تو ضعیف اور من گھڑت احادیث دین میں شامل ہو جاتیں، جس سے اسلامی تعلیمات میں بگاڑ پیدا ہو سکتا تھا۔

یہی وجہ ہے کہ محدثین نے پوری محنت کے ساتھ راویوں کی سچائی اور حفظِ حدیث کی قابلیت کو پرکھا، تاکہ صرف مستند احادیث ہی امت تک پہنچیں۔

جرح و تعدیل کی تعریف

جرح و تعدیل علم حدیث کی ایک اہم شاخ ہے جس کا مقصد راویوں کے حالات کو جانچنا اور ان کی ثقاہت یا کمزوری کو واضح کرنا ہے۔

جرح: تعریف اور اصطلاح

عربی میں "عیب” کا مطلب کسی خرابی یا زخم کے نشان کو کہتے ہیں، اور اسی سے "جراح” کا لفظ بھی ماخوذ ہے۔ محدثین کی اصطلاح میں "جرح” کسی راوی پر ایسی تنقید کو کہتے ہیں جس سے اس کی عدالت اور ضبط پر سوال اٹھ جائے۔ ایسے الفاظ کے استعمال سے راوی کی روایت ناقابل قبول قرار دی جاتی ہے، جیسے اگر کہا جائے: "ھُوَ کَذَّابٌ” (وہ جھوٹا ہے)، "فَاسِقٌ” (فاسق ہے)، "لَیْسَ بِثِقَةٍ” (ثقہ نہیں ہے)، "لَا یُعْتَبَرُ” (قابل اعتبار نہیں) یا "لَا یُکْتَبُ حَدِیثُہُ” (اس کی حدیث نہیں لکھی جاتی)۔

جارح: تعریف

ایک ماہر ، منصف اور بے لاگ بات کرنے والا محدث جو کسی راوی کی علمی، بد عملی، اور اس کی عدالت وضبط کی کمزوری کو بخوبی جان کر اسے ناقابل قبول قرار دے، جارح کہلاتا ہے۔

جارح کے لیے شرائط

جرح کرنے والے محدث کے لئے پانچ شرائط عائد کی جاتی ہیں:

  1. عدل: جرح ایک عادل شخص کی طرف سے ہو۔ فاسق جارح، یعنی محدث کی جرح قبول نہ ہو گی۔

  2. بیدار مغزی: جرح ایسے شخص کی طرف سے ہو جو بیدار مغز ہو نہ کہ غفلت کا شکار ہو۔ اگر کوئی ایسا محدث جرح کرے، تو اس کی جرح قبول نہ ہوگی۔

  3. اسبابِ جرح کا علم: جو عالم جرح کے اسباب کو جانتا ہو اس کی یہ جرح ہو۔ مگر جو خرابیوں کو نہ جانتا ہو اس کی جرح ناقابل قبول ہوگی۔

  4. سبب کا بیان: جرح کرنے والا جرح کا سبب بھی بیان کرے۔ مبہم جرح قبول نہ ہوگی۔ مثلاً صرف وہ یہ کہہ دے: ھُوَ ضَعیفٌ: وہ ضعیف راوی ہے یا یُرَدُّ حَدِیثُہُ: اس کی حدیث رد کی جاتی ہے کیونکہ یہ سبب بتائے بغیر کی جرح ہے۔ اس لئے کہ ہوسکتا ہے وہ اسے ایسے سبب کی بناء پر جرح کررہا ہو جو جرح کا تقاضا ہی نہ کرتا ہو۔ محدثین کے ہاں یہی قاعدہ مشہور ومعروف ہے۔ امام ابن حجرؒ نے مبہم جرح قبول کرنے کا لکھا ہے۔ ہاں جو راوی عادل ہو تو اس پر جرح، سبب جرح بیان کرنے پر ہی قبول کی جائے گی۔ یہی راجح قول ہے اور جارح بھی ائمہ جرح و تعدیل میں سے ہو۔ اس لئے عمرو بن علی الفلاس کی محمد بن بشار بندار پر جرح جو بغیر سبب کے ہے قبول نہیں کی گئی۔

  5. شہرت یافتہ ائمہ پر جرح نہ ہو: یہ جرح ایسے علماء و آئمہ پر نہ ہو جن کی عدالت تواتر سے اور امامت شہرت کی حد سے متجاوز ہو چکی ہو۔ جیسے: نافع، شعبہ، مالک و بخاری رحمہ اللہ پر کسی کی جرح۔ ایسے علماء وائمہ پر جرح سورج پر تھوک پھینکنے کے مترادف ہے۔ یہ جرح خواہ مفسر ہی کیوں نہ ہو بالکل قبول نہیں ہوگی۔ اس کی روایت کردہ حدیث بھی صحیح درجے کی ہوگی نہ کہ حسن درجے کی۔ معاصرت بھی منافرت کا سبب بنتی ہے۔ اس لئے بقول امام السبکی:

ابن ابی ذئب کی امام مالک پر، ابن معین کی امام شافعی پر، امام نسائی کی احمد بن صالح پر جو جرح ہے وہ ناقابل التفات ہے۔ یہ جرح ایک انجانی سی اطلاع کی طرح ہے۔ کیونکہ یہ سب مشہور ائمہ ہیں۔ اگر یہ جرح صحیح بھی ہو تب بھی بہت سی اور معلومات درکار ہوں گی جو نتیجۃً اس خبر کو غیر درست ہی ثابت کریں گی۔ 📚طبقات الشافعیہ الکبری، جلد ۲، صفحہ ۱۲۔

اسی طرح امام ابن حزمؒ نے امام ترمذیؒ، ابو القاسم البغویؒ، اسماعیل بن محمد الصفارؒ اور ابوالعباس الاصمؒ کو مجہول کہا ہے۔ اس جرح پر نقاد محدثین نے ابن حزم پر خاصی لے دے کی ہے۔ ان کی مزید مثالیں دیکھنا ہوں تو امام ابن حجر ؒ کے مقدمہ "ہدی الساری” کا مطالعہ مفید رہے گا۔

جرح کرنے والے محدثین کی اقسام

جرح و تعدیل کرنے والے محدثین کو تین اقسام میں تقسیم کیا جاتا ہے:

  1. متشدد
  2. معتدل
  3. متساہل

متشدد امام

یہ محدّثین راویوں پر سخت معیار لاگو کرتے تھے اور ذرا سے کمزوری(ضعف) پہ بھی انہیں ضعیف قرار دیتے تھے۔ ان کی مجبوری یہ تھی کہ ان کے دور میں مفتون و مبتدع قسم کے لوگ اپنی بد عقیدگی سمیت میدان روایت حدیث میں گھس رہے تھے۔اس لئے انہوں نے بغیر کسی رو رعایت کے ان کے معائب اور خرافات کا پردہ چاک کر کے انہیں نااہل قرار دیا۔ بہت ہی سختی کرنے والے علماء میں:

  • امام یحییٰ بن سعید القطان رحمہ اللہ
  • شعبہ بن الحجاج رحمۃ اللہ
  • سفیان ثوری رحمہ اللہ
  • یحییٰ بن معین رحمہ اللہ

معتدل امام

یہ محدّثین جرح و تعدیل میں متوازن اور محتاط رویہ رکھتے تھے۔ ان کے دور میں جن مفتون و مبتدع اور نااہل حضرات نے میدان حدیث کا رخ کیا تو انہوں نے بہت ہی مختصر و معتدل مگر جامع اور دھیمے الفاظ میں جرح کی جو سخت ترین نقد و جرح سمجھی گئی۔ ان علماء میں:

  • عبد الرحمن بن مہدی رحمۃ اللہ
  • امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ
  • امام بخاری ؒ رحمہ اللہ

متساہل امام

یہ محدّثین جرح و تعدیل میں نرمی برتتے تھے۔ اور بسا اوقات ضعیف و مجھول راویوں کو بھی قبول و ثقہ قرار دیتے تھے۔ گو ان کا تساہل بہت کم رواۃ واحادیث میں ملتا ہے۔ چونکہ وہ نقطہ اعتدال سے ذرا ہٹ گئے تھے اس لئے ضعیف راوی کے حق میں ان کی توثیق قبول نہیں کی گئی۔ ان علماء میں:

  • ابن حبان رحمۃ اللہ
  • امام ترمذی رحمۃ اللہ
  • امام حاکم رحمۃ اللہ
  • ابو نعیم الاصفھانی رحمۃ اللہ

یہ تقسیم ہمیں محدثین کے مختلف اسالیب کو سمجھنے میں مدد دیتی ہے اور اس سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ حدیث کی جانچ پڑتال میں کس قدر احتیاط برتی گئی ہے؟

جرح و تعدیل میں فرق و قبولیت کے اصول

  • اگر متشدد محدث کی جرح کی تائید، کوئی معتدل محدث بھی کرے تو ہی وہ قبول ہوگی، ورنہ نہیں۔
  • اگر متساہل محدث کسی راوی کو ثقہ کہے، لیکن معتدل محدث اس کی تائید نہ کرے تو وہ توثیق قبول نہیں ہوگی۔
  • راوی کی جرح اگر مطلق ہو تو ہر حال میں اس کی روایت ضعیف ہوگی، لیکن اگر مقید ہو تو صرف اسی خاص حالت میں اسے ضعیف سمجھا جائے گا۔

جرح کی اقسام

جرح کی دو بڑی اقسام ہیں:

1. مطلق جرح

یہ وہ جرح ہوتی ہے جس میں کسی راوی پر بغیر کسی قید یا شرط کے تنقید کی جاتی ہے، یعنی وہ ہر حال میں ناقابل قبول سمجھا جاتا ہے۔

مثال: امام ابن حجر رحمہ اللہ نے زید بن الحباب کے بارے میں کہا: "صَدُوقٌ یُخْطِئُ فِی حَدِیثِ الثَّورِیِّ” (یہ سچے ہیں مگر امام ثوری کی روایت میں خطا کر جاتے ہیں۔)

2. مقید جرح

یہ وہ جرح ہوتی ہے جو کسی مخصوص حالت، شیخ، یا گروہ سے نسبت کی بنیاد پر کی جاتی ہے۔

مثال: الخلاصة کے مصنف نے اسماعیل بن عیاش کے بارے میں لکھا:"وَثَّقَہُ أَحْمَدُ وَابْنُ مَعِینٍ وَالْبُخاریُّ فِی أَھلِ الشّامِ، وَضَعَّفُوہُ فیِ الْحِجَازِیِّیْنَ۔” (امام احمد، ابن معین اور بخاری نے اہل شام میں انہیں ثقہ گردانا ہے اور اہل حجاز میں ضعیف۔ لہٰذا وہ اہل حجاز سے روایت کردہ حدیث میں ضعیف ہوں گے نہ کہ اہل شام سے۔)

تعدیل: تعریف اور خوبیاں

عربی میں "عدل” کا مطلب معاملات میں توازن اور اعتدال رکھنا ہے، جبکہ اس کا متضاد "جور” ہے۔ اصطلاحی طور پر تعدیل کسی راوی کی دیانت اور ضبط کی تصدیق کا عمل ہے، جو مکمل تحقیق کے بعد کی جاتی ہے۔ جب کسی راوی کو "ثقہ”، "ضابط”، "متقن” یا "اوثق الناس” جیسے الفاظ سے بیان کیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ روایت میں مضبوط اور دیانت دار ہے۔ ایک بڑے محدث کی جانب سے تعدیل کے بعد اس راوی کی حدیث کو قبول کیا جاتا ہے اور حجت بنایا جاتا ہے۔

عدل کی خوبیاں

ذیل کی چند خوبیاں راوی میں عدل کو ثابت کرتی ہیں:

  1. اسلام: راوی مومن صادق ہو، منافق، مشرک، کافر نہ ہو یا برے عقیدے و عمل کی وجہ سے کافر نہ قرار دیا گیا ہو۔
  2. عقل: راوی میں جنون نہ ہو، وہ بہکی بہکی باتیں کرنے والا نہ ہو بلکہ اس کی عقل سلامت ہو۔
  3. بلوغ: راوی ایسا بچہ نہ ہو جو چیزوں میں تمیز نہ کرسکے۔راوی عاقل و بالغ بھی ہو۔
  4. صدق: اپنے لہجے میں بھی سچا ہو اور امین ہو۔ حدیث رسول میں یا لوگوں کے ساتھ باتوں میں وہ جھوٹا اور کذاب نہ ہو۔
  5. تقویٰ: راوی خوف خدا سے ہر وقت سرشار ہو۔ اخلاق حسنہ اور عادات جمیلہ سے مزین ہو۔ فاسق کی صفات سے وہ بری ہو۔
  6. شہرت: طلب حدیث اور اس کی روایت میں معروف ہو۔ اس کے ایسے ثقہ مشایخ ہوں جنہوں نے اس کی توثیق کی ہو۔ اور ایسے شاگرد ہوں جو اس سے روایت میں بھی جانے پہچانے ہوں۔ راوی نہ مجہول العین ہو نہ ہی مجہول الحال۔

معدل: شرائط

معدل کے لیے درج ذیل شرائط ضروری ہیں:

  1. عادلانہ کردار: معدل کا اپنا کردار عادلانہ ہو، یعنی وہ خود دیانت دار اور راست باز ہو۔ اگر وہ فاسق ہو تو اس کی گواہی معتبر نہیں سمجھی جائے گی۔
  2. ذہانت اور ہوشیاری: معدل ذہین اور ہوشیار ہو، کیونکہ اگر وہ غفلت برتنے والا ہو تو راوی کے ظاہری حالات سے دھوکہ کھا سکتا ہے۔
  3. تعدیل کے اصولوں کی واقفیت: معدل کو تعدیل کے اسباب اور اصولوں کی مکمل واقفیت ہو۔ اگر وہ صفات قبولیت و رد کو نہ جانتا ہو تو اس کی تعدیل ناقابلِ اعتبار ہوگی۔
  4. پرہیزگاری اور تقویٰ: وہ پرہیزگار اور تقویٰ کا حامل ہو، تاکہ تعصب اور نفسانی خواہشات اس کے فیصلے پر اثرانداز نہ ہوں۔

جرح و تعدیل کے قاعدے

  1. تمام صحابہ کرام عادل ہیں، اس لیے ان پر جرح نہیں ہوگی، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں {اُولٰىِٕكَ ہُمُ الصّٰدِقُوْنَ} کے اعزاز سے نوازا ہے۔

  2. جس راوی کی تعدیل و توثیق پر امت کا اجماع ہو چکا ہو، اس پر کسی قسم کی جرح قبول نہیں کی جائے گی، جیسے امام اعظم، امام مالک، امام شافعی، امام احمد، اور امام بخاری و مسلم رحمہم اللہ۔

  3. جرح و تعدیل وہی معتبر ہوگی جو ثقہ، متقن، اور اسباب جرح و تعدیل کی مکمل معرفت رکھنے والے شخص کی طرف سے ہو۔

  4. راوی کے تزکیہ کے لیے کسی معین تعداد کی شرط نہیں، بلکہ ایک معتبر شخصیت بھی اس کے عادل ہونے کی گواہی دے سکتی ہے۔ یاد رہے کہ شہادت دینے اور روایت کرنے میں فرق ہوتا ہے اور ان دونوں کی شرائط بھی مختلف ہیں۔

  5. کسی ثقہ راوی کا کسی دوسرے راوی سے روایت لینا، از خود اس کے عادل ہونے کی دلیل نہیں بنتا۔

  6. بغیر ذکرِ سبب جرح قابل قبول ہو سکتی ہے، بشرطیکہ جارح ثقہ، معتبر اور اسبابِ جرح کی معرفت رکھنے والا ہو۔ بعض علماء کے نزدیک بغیر سبب جرح قبول نہیں۔

    اس کی دو صورتیں ہیں:

    • اگر راوی میں کوئی واضح عیب موجود ہو تو اس کا ذکر کافی ہے، کیونکہ کسی کے مناقب بیان کرنے کے لیے زیادہ تفصیلات درکار ہوتی ہیں۔
    • اسبابِ جرح مختلف علماء کے نزدیک مختلف ہو سکتے ہیں، اس لیے جارح کو صرف وہی سبب بیان کرنا چاہیے جو راوی کو مجروح بنانے کے لیے کافی ہو، تاکہ اس پر فیصلہ جلدی اور آسانی سے کیا جا سکے۔
  7. کسی حدیث کے مطابق کسی عالم کے عمل یا فتوے کو اس حدیث کے صحیح ہونے یا اس کے راوی کی توثیق کی دلیل نہیں بنایا جا سکتا۔

نتیجہ

جرح و تعدیل کے اصولوں کو سمجھنا حدیث کی تحقیق میں بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ کسی بھی حدیث کو صحیح یا ضعیف قرار دینے کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ راوی پر کس درجے کی جرح کی گئی ہے اور جرح کرنے والا محدث کس زمرے میں آتا ہے۔ متشدد، معتدل، اور متساہل محدثین کی آراء کو ان کے درجے کے مطابق قبول یا مسترد کرنا ہی تحقیق کا درست اصول ہے۔

از قلم: ابو سعید عبد المعید عطاری ✍️🍁

ایک تبصرہ چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اوپر تک سکرول کریں۔