الحکمۃ

میلاد النبی ﷺ: کیوں اور کیسے منائیں؟ محبت رسول ﷺ کا عملی اظہار

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت، کائنات کی سب سے بڑی رحمت اور نعمت ہے۔ اس عظیم دن کی خوشی منانا ایمان کا تقاضا ہے، جس کے ذریعے ہم اپنی عقیدت، شکر گزاری اور سیرتِ طیبہ کی یاد کو تازہ کرتے ہیں۔ میلاد النبی ﷺ کا اہتمام محض ایک تقریب نہیں، بلکہ یہ ایمان کی تجدید، دینی شعور کی بیداری اور عملی زندگی میں سنتِ نبوی کو اپنانے کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔

اس تحریر میں ہم میلاد النبی ﷺ منانے کے شرعی دلائل اور اس کی اہمیت پر روشنی ڈالیں گے، تاکہ اسے درست اور بامقصد طریقے سے منایا جا سکے۔


میلاد النبی ﷺ کے قرآنی  دلائل

قرآن و سنت کی روشنی میں میلاد منانے کے جواز پر کئی دلائل موجود ہیں۔ یہاں ہم چند اہم دلائل ملاحظہ کرتے ہیں:

1. اللہ کی رحمت پر خوشی منانے کا حکم

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

قُلْ بِفَضْلِ اللَّهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَٰلِكَ فَلْيَفْرَحُوا

(یونس: 58)

ترجمہ: ”کہہ دیجیے: اللہ کے فضل اور اس کی رحمت پر خوش ہو جاؤ۔“

اور دوسری جگہ فرمایا:

وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ

(الأنبیاء: 107)

ترجمہ: ”اور ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر۔“

چونکہ نبی اکرم ﷺ ہی اللہ کی سب سے بڑی رحمت ہیں، لہٰذا اس رحمت کی ولادت پر خوشی منانا براہِ راست قرآنی حکم کی پیروی ہے۔ میلاد النبی ﷺ اس خوشی کا بہترین اظہار ہے۔

2. انبیاء کرام کی ولادت کے دن کی تعظیم

قرآنِ کریم میں مختلف مقامات پر انبیاء کرام کی ولادت کے دن پر سلامتی بھیجی گئی ہے:

وَسَلَامٌ عَلَيْهِ يَوْمَ وُلِدَ وَيَوْمَ يَمُوتُ وَيَوْمَ يُبْعَثُ حَيًّا

(سورۃ مریم: 15)

(یحییٰ علیہ السلام کے بارے میں)

وَالسَّلَامُ عَلَيَّ يَوْمَ وُلِدتُّ وَيَوْمَ أَمُوتُ وَيَوْمَ أُبْعَثُ حَيًّا

(سورۃ مریم: 33)

(عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں)

ان آیات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ انبیاء کرام کی ولادت کا دن برکت والا ہے۔ پس امام الانبیاء ﷺ کی ولادت کا دن تو بدرجہ اولیٰ محبت، شکر اور سلامتی کا دن ہوا۔

3. اللہ کی نعمتوں والے دنوں کو یاد کرنے کا حکم

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

وَذَكِّرْهُمْ بِأَيَّامِ اللَّهِ

(ابراہیم: 5)

ترجمہ: ”اور انہیں اللہ کے دنوں کی یاد دلاؤ۔“

اہلِ تفسیر کے مطابق "ایام اللہ” وہ دن ہیں جن میں اللہ نے اپنی عظیم نعمتیں عطا کیں۔ اور نبی کریم ﷺ کی ولادت تمام نعمتوں میں سے سب سے بڑی نعمت ہے۔ لہٰذا اس دن کی یاد منانا براہِ راست قرآنی حکم کے مطابق ہے۔

4. رسول کی بعثت کو احسان قرار دینا

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْ أَنفُسِهِمْ

(آل عمران: 164)

ترجمہ: ”یقیناً اللہ نے ایمان والوں پر بڑا احسان فرمایا جب ان میں انہی میں سے ایک رسول بھیجا۔“

اگر رسول کی بعثت اللہ کا احسان ہے، تو ان کی ولادت اس سے بھی بڑا احسان ہے، کیونکہ بعثت کی بنیاد ہی ولادت ہے۔

5. شعائر اللہ کی تعظیم

اللہ فرماتا ہے:

ذَلِكَ وَمَن يُعَظِّمْ شَعَائِرَ اللَّهِ فَإِنَّهَا مِن تَقْوَى الْقُلُوبِ

(الحج: 32)

ترجمہ: ”یہ (اطاعت) ہے اور جو اللہ کی نشانیوں کی تعظیم کرے تو یہ دلوں کے تقویٰ سے ہے۔“

نبی کریم ﷺ کی ولادت کا دن یقیناً شعائر اللہ میں سے ہے، کیونکہ اسی دن سے ہدایت کا سورج طلوع ہوا۔ اس دن کی تعظیم کرنا تقویٰ کی علامت ہے۔


میلاد النبی ﷺ کے احادیث سے دلائل:

قرآن کے دلائل کے بعد اب ہم چند اہم احادیثی دلائل کی طرف آتے ہیں، جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ نبی اکرم ﷺ کی ولادت کا دن کس قدر عظمت والا ہے۔

جبریل علیہ السلام کا شیطان کو ملکِ عدن پہنچانا

آئیے ایک ایسی مبارک روایت پر بات کریں جو میلاد کے موقع پر سیدنا جبریل علیہ السلام کا شیطان کو دور پھینک دینے کا ثبوت فراہم کرتی ہے۔ یہ روایت اپنی سند کے اعتبار سے قابلِ حجت ہے اور اس کی صحت پر کوئی وہابی یا دیوبندی انگلی نہیں اٹھا سکتا کہ یہ بے سند یا من گھڑت ہے۔

اس روایت کو پڑھنے کے بعد، میلاد پر اعتراض کرنے والوں کو دلائل دینے کی ضرورت نہیں، بلکہ جبریل علیہ السلام کی سنت پر عمل کرتے ہوئے شیطان اور اس کی اولاد کو "ملکِ عدن” پہنچا دینے کا جذبہ پیدا ہو جاتا ہے۔

عربی سند اور متن

قال الواقدي : وحدثني طلحة بن عمرو عن عطاء عن ابن عباس : قال كانت الشياطين يستمعون الوحي ، فلما بعث محمد – صلى الله عليه وسلم – منعوا ، فشكوا ذلك إلى إبليس ، فقال : لقد حدث أمر . فرقي فوق أبي قبيس ، وهو أول جبل وضع على الأرض ، فرأى رسول الله – صلى الله عليه وسلم – يصلي خلف المقام . فقال أذهب فأكسر عنقه . فجاء يخطر ، وجبريل عنده ، فركضه جبريل ركضة طرحه في كذا وكذا ، فولى الشيطان هاربا . ثم رواه الواقدي وأبو أحمد الزبيري كلاهما عن رباح بن أبي معروف عن قيس بن سعد عن مجاهد فذكر مثل هذا . وقال : فركضه برجله فرماه بعدن .

اردو ترجمہ

امام واقدی نے بیان کیا کہ مجھ سے طلحہ بن عمرو نے، وہ عطاء سے اور وہ ابن عباس (رضی اللہ عنہما) سے روایت کرتے ہیں:

ابن عباس (رضی اللہ عنہما) نے فرمایا: "شیطان آسمانوں میں وحی کو سن لیا کرتے تھے، لیکن جب حضور نبی کریم ﷺ کو مبعوث فرمایا گیا تو انہیں روک دیا گیا۔ تو وہ (شیطان) اس بات کی شکایت ابلیس کے پاس لے گئے۔ ابلیس نے کہا: ‘یقیناً کوئی نیا معاملہ پیش آیا ہے۔’ پھر وہ (ابلیس) جبلِ ابی قُبَیس پر چڑھا، جو زمین پر سب سے پہلا پہاڑ ہے، تو اس نے دیکھا کہ رسول الله ﷺ مقامِ ابراہیم کے پیچھے نماز پڑھ رہے ہیں۔ ابلیس نے کہا: ‘میں جاتا ہوں اور ان کی گردن توڑ دیتا ہوں۔’ پھر وہ چلتا ہوا آیا اور اس وقت حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نبی کریم ﷺ کے پاس موجود تھے۔ جبرائیل (علیہ السلام) نے اسے ایک ٹھوکر ماری جس سے وہ اتنی دور جا گرا۔ شیطان بھاگ کھڑا ہوا۔”

پھر امام واقدی اور ابو احمد زبیری دونوں نے رباح بن ابی معروف سے، وہ قیس بن سعد سے اور وہ مجاہد سے اسی طرح کی روایت بیان کی اور یہ بھی کہا: "جبرائیل نے اسے اپنے پاؤں سے ٹھوکر ماری اور عدن (یمن) کی طرف پھینک دیا۔”

روایت کی اسنادی حیثیت پر بحث

یہ روایت ‘خصائص کبریٰ’ کے اندر درج ہے اور اس کی ایک سے زیادہ اسناد موجود ہیں جو اسے مضبوط بناتی ہیں۔

  • پہلی سند: امام ابن ابی حاتم نے اپنی تفسیر میں سیدنا عکرمہ (رضی اللہ عنہ) سے یہ روایت نقل کی ہے۔

  • دوسری سند: امام واقدی نے اسی روایت کو سیدنا ابن عباس (رضی اللہ عنہ) سے بیان کیا ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ مجھے طلحہ بن عمرو نے عطا سے خبر دی، جو سیدنا ابن عباس سے روایت کرتے ہیں۔

  • تیسری سند: ابن کثیر نے بھی اپنی تاریخ میں یہ روایت لائے ہیں۔ امام واقدی اور ابو احمد الزبیدی دونوں نے رباح بن ابی معروف سے، وہ قیس بن سعد سے اور وہ مجاہد سے اس کی مثل روایت بیان کی، جس میں فرمایا گیا کہ جبریل علیہ السلام نے شیطان کو ایسی لات ماری کہ وہ "ملکِ عدن” جا گرا۔

نوٹ: یہاں "عطا” سے مراد عطا بن السائب ہیں، جن پر حافظہ کے اعتبار سے کچھ کلام ہے، لیکن ان کی ذات فی نفسہ ثقہ (قابلِ اعتبار) ہے۔

اس اعتبار سے، اگرچہ اس روایت میں قلیل ضعف پایا جاتا ہے، لیکن چونکہ یہ تین مختلف اسناد سے مروی ہے، لہٰذا اس کو "حسن لغیرہ” کا درجہ حاصل ہے۔ یعنی متعدد ضعیف طرق ایک دوسرے کو تقویت دے کر اسے حسن کے درجے تک لے آتے ہیں۔

جہاں تک امام واقدی کا تعلق ہے، تو وہ اگرچہ علمِ حدیث میں ضعیف ہیں، لیکن علمِ تاریخ، سیر و مغازی اور حالاتِ زمانہ میں وہ ایک ماہر اور حافظ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ جیسا کہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان بریلوی نے "فتاویٰ رضویہ” (ج 5، ص 526-527) میں فرمایا کہ امام واقدی تاریخ میں امام اور مقبول ہیں۔

یاد رہے کہ یہ روایت بنیادی طور پر تاریخی ہے، نہ کہ حدیثی۔ اور تاریخ بھی علمِ حدیث کا ایک اہم باب ہے، جیسے "کتاب المغازی” اور "کتاب السیر”۔ بالفرض اگر اسے حدیثی بھی مان لیا جائے، تو بھی اسے "سخت ضعیف” کوئی ثابت نہیں کر سکتا، کیونکہ ہم نے اسے قلیل ضعف کے باوجود تین اسناد کی بنیاد پر "حسن لغیرہ” ثابت کر دیا ہے۔

یہ روایت میلاد کی خوشی کے موقع پر شیطان کی مایوسی اور اس پر اللہ کے فرشتوں کے غلبے کو ظاہر کرتی ہے، جو میلاد کا ایک روحانی پہلو ہے۔

ایک روایت کے مطابق، نبی اکرم ﷺ کی ولادت کے بعد جب شیطان نے وحی کے نزول کو رکتے دیکھا تو وہ سراسیمہ ہوگیا۔ وہ جبلِ ابی قُبَیس پر چڑھا، تو اس نے رسول اللہ ﷺ کو نماز پڑھتے دیکھا۔ وہ نقصان پہنچانے کی نیت سے آیا تو حضرت جبریل علیہ السلام نے اسے اپنے پاؤں سے ٹھوکر ماری اور وہ یمن کے علاقے عدن جا گرا۔

سند اور تحقیق: یہ روایت مختلف طرق سے مروی ہے، جن میں سے چند یہ ہیں:

  • امام واقدی نے طلحہ بن عمرو عن عطاء عن ابن عباس سے روایت کیا۔

  • امام واقدی اور ابو احمد زبیری نے رباح بن ابی معروف عن قیس بن سعد عن مجاہد سے روایت کیا۔

اگرچہ بعض محدثین نے اس روایت کی سند پر کلام کیا ہے، لیکن تین مختلف طرق سے مروی ہونے کی وجہ سے اسے "حسن لغیرہ” قرار دیا گیا ہے، یعنی ایک دوسرے سے تقویت پا کر یہ روایت قابلِ قبول ہو جاتی ہے۔ یاد رہے کہ امام واقدی اگرچہ حدیث میں ضعیف ہیں، لیکن تاریخ و سیر کے باب میں انہیں ثقہ مانا جاتا ہے۔

ولادت کے وقت شام کے محلات کا روشن ہونا

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت ایک معمولی واقعہ نہ تھا، بلکہ یہ وہ لمحہ تھا جب کائنات میں نور ہی نور پھیل گیا تھا۔ آپ کی ولادت کے وقت ظاہر ہونے والا ایک عظیم معجزہ یہ بھی ہے کہ آپ کی والدہ ماجدہ نے دیکھا کہ ان کے جسم سے ایک نور نکلا جس سے شام کے محلات تک روشن ہو گئے۔

اس معجزے پر وہابی مولوی انور زاہد نے اپنی کتاب "ضعیف اور من گھڑت واقعات” (ص 31-32) میں اعتراض کرتے ہوئے اسے ضعیف قرار دیا۔ ان کا دعویٰ ہے کہ اس روایت کا ایک راوی نامعتبر ہے اور باقی مجہول ہیں۔ لیکن یہ دعویٰ علم و تحقیق کی روشنی میں بالکل بے بنیاد ہے۔ اس روایت کی سند کا صحیح تجزیہ ملاحظہ کریں:

أخبرنا أحمد بن علي، قال: أخبرنا هبة الله بن الحسن قال : أخبرنا مُحَمَّدُ بْنُ عبدِ الرَّحْمَنِ بْنِ العَبَّاسِ ،قال : حَدَّثنا عبد الله بْنُ مُحَمَّدٍ البَغَوِيُّ، قال: حَدَّثنا عليُّ بْنُ الجَعْدِ ،قال : حَدَّثنا فَرَجُ بْنُ فَضَالَةَ ، عن لقمان بن عامر، عن أبي أمامة الباهلي رضي الله عنه، قال: قيل يا رسول الله ! ما كان بُدو أمرك ؟ قال : دَعْوَةُ إِبْرَاهِيمَ، وَبُشْرَى عِيسَى، وَرَأَتْ أُمِّي خَرَجَ مِنْهَا نُوْرُ أَضَاءَتْ لَهُ قُصُوْرُ الشَّامِ

اردو ترجمہ: حضرت ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ عرض کی گئی: "یا رسول اللہ! آپ کی پیدائش کیسی ہوئی؟” تو حضور ﷺ نے فرمایا: "میں ابراہیم علیہ السلام کی دعا ہوں، عیسیٰ علیہ السلام کی بشارت ہوں، اور میری والدہ نے دیکھا کہ مجھ سے ایک ایسا نور نکلا جس سے شام کے محلات روشن ہو گئے۔”


روایت کی اسنادی تحقیق: وہابیوں کے دعووں کا علمی رد

انور زاہد جیسے سطحی علم رکھنے والے افراد کا یہ کہنا کہ اس روایت میں "احمد بن محمد بن عبد العزیز” نامی نامعتبر راوی موجود ہے، سراسر جہالت پر مبنی ہے۔ جیسا کہ آپ نے خود واضح کیا، اس پوری سند میں اس نام کا کوئی راوی موجود ہی نہیں ہے۔ یہ دعویٰ ان کی کم علمی اور تعصب کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

یہ روایت اپنی مختلف اسناد کے ساتھ درجنوں معتبر کتبِ حدیث میں موجود ہے، اور اس کے قوی شواہد اس کی صحت کو مزید تقویت دیتے ہیں۔ آئیے اس کے چند مستند حوالہ جات اور محدثین کی تصحیحات ملاحظہ کریں:

  1. امام احمد بن حنبل: انہوں نے اس روایت کو اپنی "مسند” میں صحیح سند کے ساتھ تین مختلف مقامات پر ذکر کیا ہے (حدیث نمبر: 17281، 17798 اور 22616)۔

  2. امام حاکم: انہوں نے اپنی "مستدرک” میں اسے تین جگہ (حدیث نمبر: 3566، 4175، 4230) نقل کیا اور فرمایا کہ یہ احادیث صحیح الاسناد ہیں، اگرچہ بخاری و مسلم نے اسے نقل نہیں کیا۔

  3. امام ہیثمی: "مجمع الزوائد” (ج 8، ص 289، حدیث 13842) میں اس روایت کو نقل کرتے ہوئے فرمایا کہ اس کی سند حسن ہے اور اس کے شواہد قوی ہیں۔

  4. امام بیہقی: "دلائل النبوۃ” (ج 1، ص 84)۔

  5. امام طبرانی: "المعجم الکبیر” (ج 8، ص 206، حدیث 7729)۔

  6. امام دارمی: "سنن دارمی” (ج 1، حدیث 13)۔

  7. ابن عساکر: "تاریخ دمشق” (ج 3، ص 170)۔

  8. ابو داؤد طیالسی: "مسند طیالسی” (ج 2، ص 126، حدیث 1236)۔

  9. امام بغوی: "شرح السنہ” (ج 13، ص 207، حدیث 3626)۔

  10. ابن حبان: "زوائد” (ج 6، ص 434، حدیث 2093)۔

  11. امام ابن سعد: "طبقات الکبیر” (ج 1، ص 82)۔

  12. امام الالکائی: "شرح اصول اعتقاد اہلسنہ” (ج 3، ص 10، حدیث 1404)۔

  13. خطیب تبریزی: "مشکوٰۃ المصابیح” (حدیث نمبر 5759 اور 5760) میں اس روایت کو نقل کیا۔

یہ تمام دلائل اس روایت کی صحت اور استناد کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں۔


وہابی علماء کی اپنی کتب سے تصدیق

یہ بات حیران کن ہے کہ بعض وہابی علماء نے بھی اپنی کتابوں میں اس روایت کی صحت کو تسلیم کیا ہے، جس سے ان کے اپنے ہی نظریات کا تضاد واضح ہوتا ہے:

  • زبیر زئی: مکتبہ اسلامیہ سے چھپنے والی "مشکوٰۃ المصابیح” کی تحقیق میں انہوں نے مذکورہ دونوں حدیثوں کو "حسن” قرار دیا ہے (مشکوٰۃ المصابیح، ج 3، ص 386)۔

  • علامہ البانی: انہوں نے بھی "السلسلۃ الصحیحہ” میں اس روایت کو دو مرتبہ نقل کیا ہے (حدیث نمبر 3172 اور 3496)۔

  • صدیق حسن بھوپالی: اپنی کتاب "الشمامۃ العنبریہ” (ص 10) میں لکھتے ہیں کہ اس حدیث کو امام احمد، امام بزار، امام طبرانی، امام حاکم اور امام بیہقی نے روایت کیا ہے۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ابن حجر عسقلانی نے لکھا ہے کہ اس حدیث کو ابن حبان اور امام حاکم نے "صحیح” قرار دیا ہے اور اس کی متعدد اسناد ہیں۔

ان تمام مستند حوالہ جات اور خود وہابی مسلک کے علماء کی تصدیق کے بعد یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ یہ معجزہ ایک صحیح اور ثابت شدہ حقیقت ہے جس کا انکار محض تعصب کی بنا پر کیا جاتا ہے۔ میلاد النبی ﷺ پر اس قسم کے معجزات کا ذکر دراصل حضور ﷺ کی شان اور فضیلت کو بیان کرنا ہے، جس پر ایمان کا ایک حصہ ہے۔

ایک مشہور روایت میں ہے کہ جب نبی اکرم ﷺ کی ولادت ہوئی تو آپ کی والدہ نے دیکھا کہ آپ کے جسم سے ایک نور نکلا جس سے شام کے محلات روشن ہوگئے۔

سند اور تحقیق: وہابی مولوی انور زاہد نے اپنی کتاب میں اسے ضعیف قرار دیا، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ روایت متعدد صحیح اسناد سے کتبِ حدیث میں موجود ہے:

  • امام احمد بن حنبل نے مسند میں تین جگہ اسے صحیح سند سے ذکر کیا ہے۔

  • امام حاکم نے مستدرک میں تین جگہ اس کو نقل کرتے ہوئے صحیح الاسناد قرار دیا۔

  • امام ہیثمی نے مجمع الزوائد میں اس کی سند کو حسن کہا۔

  • امام بیہقی، طبرانی، دارمی، ابن عساکر، ابن حبان، اور خطیب تبریزی جیسے بڑے محدثین نے اس روایت کو نقل کیا ہے۔

  • اہلِ حدیث کے عالم زبیر زئی نے مکتبہ اسلامیہ سے چھپنے والی مشکوٰۃ المصابیح میں اس حدیث کو حسن قرار دیا۔

  • علامہ البانی نے السلسلۃ الصحیحہ میں اس روایت کو دو بار نقل کیا۔

یہ دلائل ثابت کرتے ہیں کہ یہ روایت مستند اور صحیح ہے۔


تاریخِ ولادت ﷺ: صحابہ کرام کی گواہی اور 12 ربیع الاول کی حقیقت

نبی کریم ﷺ کی تاریخِ ولادت کے حوالے سے مختلف روایات پائی جاتی ہیں، لیکن صحابہ کرام کی ایک اہم شہادت اس بات کو واضح کرتی ہے کہ آپ کی ولادت 12 ربیع الاول کو ہوئی تھی۔ یہ روایت اس لحاظ سے بھی قیمتی ہے کہ یہ آپ ﷺ کی زندگی کے دیگر اہم واقعات کو بھی اسی دن سے جوڑتی ہے۔

حافظ ابوعبداللہ حسین بن ابراہیم الہمدانی رحمة اللہ علیہ نے اپنی کتاب "الاباطیل والمناکیر والصحاح والمشاهير” میں ایک نہایت اہم روایت نقل کی ہے۔

روایت کی سند اور متن

”أخبرنا أبو الفضل محمد بن طاهر بن علي الحفاظ، أخبرنا أحمد بن محمد بن أحمد قال، حدثنا عيسى بن علي بن علي بن عيسى إملاء قال، حدثنا أبو القاسم عبدالله بن محمد بن عبد العزيز البغوي قال، حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة قال، حدثنا عفان، عن سليم بن حيان، عن سعيد بن مينا، عن جابر بن عبدالله الأنصاري وعبد الله بن عباس أنهما قالا: ولد رسول اللهﷺ يوم الفيل يوم الاثنين الثاني عشر من شهر ربيع الأول وفيه بعث، وفيه عرج إلى السماء، وفيه هاجر، وفيه مات.

اردو ترجمہ

حضرت جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہ اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ دونوں فرماتے ہیں: "رسول اللہ ﷺ کی ولادت ہاتھی کے سال سوموار کے دن، 12 ربیع الاول کو ہوئی۔ اور اسی (سوموار کے) دن آپ کو نبوت ملی، اسی دن آپ آسمان (معراج) پر گئے، اسی دن آپ نے ہجرت کی، اور اسی دن آپ کی وفات ہوئی۔”

(حوالہ: الاباطیل والمناکیر والصحاح والمشاهير، حدیث نمبر 122)


روایت کی اسنادی حیثیت: رجالِ حدیث کی تحقیق

اس روایت کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس کے تمام راوی محدثین کے نزدیک ثقہ اور صدوق ہیں۔ آئیے ان کی ایک مختصر تحقیق ملاحظہ کریں:

  • پہلے راوی: أبو الفضل محمد بن طاهر بن علي الحفاظ

    • امام ذہبی فرماتے ہیں: یہ حفاظِ حدیث میں سے تھے، صحیح العقیدہ، سچے اور صحیح و غلط کی پہچان رکھنے والے تھے۔ (سیر اعلام النبلاء، جلد 19، ص 361-363)

  • دوسرے راوی: أحمد بن محمد بن أحمد بن محمد بن منصور أبو الحسن العتيقي

    • امام ذہبی نے انہیں "الإمام المحدث الثقة” (ثقہ امام اور محدث) قرار دیا۔ (سیر اعلام النبلاء، جلد 17، ص 602)

  • تیسرے راوی: عيسى بن علي بن علي بن عيسى أبو القاسم

    • امام ذہبی نے انہیں "الشيخ الجليل العالم المسند” (عظیم الشان شیخ اور عالم) کہا اور فرمایا کہ ان کا سماع صحیح ہے۔ (سیر اعلام النبلاء، جلد 16، ص 549)

  • چوتھے راوی: أبو القاسم عبدالله بن محمد بن عبد العزيز البغوي

    • امام ذہبی نے انہیں حافظ، صدوق اور اپنے زمانے کی مسند قرار دیا۔ امام دارقطنی اور خطیب نے انہیں ثقہ کہا ہے۔ (میزان الاعتدال، جلد 2، ص 439-440)

  • پانچویں راوی: أبو بكر بن أبي شيبة

    • علمِ حدیث کی ایک عظیم شخصیت اور بے نیاز تعارف۔ امام ذہبی انہیں "الإمام العلم، سيد الحفاظ” (علم کے امام، حفاظ کے سردار) کہتے ہیں۔ (سیر اعلام النبلاء، جلد 11، ص 122-123)

  • چھٹے راوی: عفان بن مسلم

    • امام ذہبی انہیں "الإمام الحافظ، محدث العراق” کہتے ہیں، جبکہ ابو حاتم رازی نے انہیں "ثقة إمام” قرار دیا۔ (سیر اعلام النبلا، جلد 10، ص 242-243)

  • ساتویں راوی: سليم بن حيان بن بسطام الهذلي البصري

    • امام احمد بن حنبل، یحییٰ بن معین اور امام نسائی جیسے بڑے محدثین نے انہیں ثقہ کہا ہے۔ (تھذیب الکمال، جلد 11، ص 348-349)

  • آٹھویں راوی: سعيد بن مينا

    • امام ذہبی انہیں ثقہ امام کہتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ ان کی احادیث صحاح ستہ میں بھی موجود ہیں۔ (سیر اعلام النبلا، جلد 5، ص 245)

  • نویں اور دسویں راوی:

    • حضرت جابر بن عبداللہ انصاری اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم: یہ دونوں جلیل القدر صحابی ہیں۔

ان تمام دلائل اور رجالِ حدیث کی تصدیق سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ روایت اپنے تمام تر پہلوؤں کے ساتھ صحیح ہے۔ اس کے حواشی میں کتاب کے محقق نے بھی اسے صحیح کہا ہے۔

اس روایت نے نہ صرف یہ ثابت کر دیا کہ نبی ﷺ کی تاریخِ ولادت 12 ربیع الاول ہے، بلکہ یہ بھی واضح کیا کہ اسی دن آپ کی نبوت کا آغاز، معراج اور ہجرت جیسے اہم واقعات رونما ہوئے۔


میلاد النبی ﷺ کی تاریخی حیثیت: تیسری صدی ہجری سے تسلسل

میلاد النبی ﷺ منانا کوئی نئی بات نہیں ہے، بلکہ اس کا سلسلہ صدیوں سے چلا آ رہا ہے۔ یہ امت کا ایک ایسا اجتماعی عمل ہے جس کی تائید سلف صالحین اور بڑے محدثین کے اقوال سے بھی ملتی ہے۔

1. امام قسطلانیؒ کی شہادت: تیسری صدی سے میلاد کا آغاز

شارحِ بخاری، عظیم محدث اور امامِ اہل سنت امام محمد بن احمد قسطلانی (المتوفیٰ 923ھ) اپنی مشہور کتاب "مواہب للدنیا” (ج 1، ص 78) میں واضح طور پر فرماتے ہیں:

”نبی کریم ﷺ کی پیدائش کے مہینے میں اہلِ اسلام تیسری صدی سے ہمیشہ محفلیں منعقد کرتے، دعوتوں کا اہتمام کرتے، ربیع الاول کی راتوں میں مختلف صدقات کرتے اور خوشی کا اظہار کرتے چلے آ رہے ہیں۔ لوگ (ماہِ میلاد میں) اپنی نیکیوں اور بھلائیوں میں اضافہ کرتے ہیں، آپ ﷺ کی مبارک ولادت کے واقعات (میلاد) پڑھنے کا اہتمام کرتے ہیں، اور اس سب کے ذریعے اُن پر آپ ﷺ کی برکتوں میں سے ہر طرح کا فضل و فیض ظاہر ہوتا ہے۔“

یہ قول اس بات کا ناقابلِ تردید ثبوت ہے کہ میلاد کی محفلیں کوئی بدعت نہیں بلکہ تیسری صدی ہجری سے مسلمانوں کا ایک معمول رہی ہیں۔

2. امام نہروانیؒ کا فتویٰ: میلاد سب سے بڑی عید

امام قطب الدین حنفی، جو امام نہروانی رحمة اللہ علیہ (المتوفیٰ 990ھ) کے نام سے معروف ہیں، اپنی کتاب "الاعلام باعلام بیت اللہ الحرام” میں مکہ مکرمہ کی ایک اہم تاریخی حقیقت بیان کرتے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کی جائے پیدائش پر دعائیں قبول ہوتی ہیں، اور یہ آج بھی زیارت کا ایک مشہور مقام ہے۔

اس کے بعد وہ مکہ میں ہونے والے ایک معمول کا ذکر کرتے ہیں:

”ہر سال 12 ربیع الاول کو فقہاء، مسجد الحرام کے معززین اور مکہ شریف کے چاروں قاضی (چاروں فقہ کے امام) اِس مقام کی زیارت کو آتے ہیں۔ وہ سب مغرب کی نماز کے بعد بہت سی موم بتیاں، لالٹینیں، مشعلیں اور جھنڈے لے کر ہجوم کی صورت میں مولد شریف کی طرف آتے ہیں۔ مکہ اور جدہ کے لوگ اس رات یہاں آتے ہیں اور وہ یہاں خوشیاں مناتے ہیں۔“

امام نہروانیؒ پھر خود ایک فیصلہ کن سوال اٹھاتے ہیں:

”اور مؤمنین اس رات خوشیاں کیوں نہ منائیں جس میں سب انبیاء اور رسولوں میں سب سے معزز نبی ﷺ پیدا ہوئے؟ اور وہ اِسے اپنی سب عیدوں سے بڑی عید کیوں نہ بنائیں؟“

(حوالہ: کتاب الاعلام باعلام بیت اللہ الحرام، مطبعة العامرة العثمانیة، صحفہ 196)

امام نہروانیؒ کی یہ گواہی دو باتوں کو ثابت کرتی ہے:

  1. پانچ سو سال پہلے بھی مسلمان 12 ربیع الاول کو جلوس اور جھنڈوں کے ساتھ میلاد مناتے تھے۔

  2. ایک حنفی محدث نے اس دن کو "عیدوں کی عید” قرار دیا۔

اس طرح، ان مستند حوالہ جات سے ثابت ہوتا ہے کہ میلاد منانا امت کا ایک قدیم اور مقبول عمل ہے، جسے بڑے ائمہ اور محدثین نے نہ صرف جائز قرار دیا بلکہ اسے "سب سے بڑی عید” بھی کہا۔ یہ دلائل ان بدعقیدہ لوگوں کے منہ پر طمانچہ ہیں جن کے دلوں میں میلاد کی محبت کی بجائے نفرت ہے۔


میلاد منانے کی حکمت و اہمیت

محبت رسول ﷺ کا حقیقی مظہر:

میلاد النبی ﷺ صرف ایک دن کی خوشی کا نام نہیں، بلکہ یہ تجدیدِ ایمان، قلبی سکون اور روحانی پاکیزگی کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔ اس کی اہمیت میں کئی اہم پہلو پوشیدہ ہیں:

  • اظہارِ محبت و عقیدت:

    اللہ تعالیٰ نے اپنی محبت کے لیے رسول ﷺ کی پیروی کو لازمی قرار دیا ہے: "قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ” (آل عمران: 31)۔ میلاد، اسی محبت کو اجاگر کرتا ہے اور پیروی کے لیے جذبہ پیدا کرتا ہے۔

  • سیرت کی یاد دہانی:

    میلاد کی تقریبات دراصل رسول ﷺ کی حیاتِ مبارکہ، اخلاق اور تعلیمات کو بیان کرنے کا ایک سنہری موقع ہیں۔ یہ تقریبات نئی نسل کو سیرتِ نبوی سے جوڑتی ہیں، جو عمل کی ترغیب دیتی ہے۔

  • امن و اخوت کا پیغام:

    نبی اکرم ﷺ کی سیرت انسانیت کے لیے امن، رحمت اور اخوت کا پیغام ہے۔ میلاد کی محافل کے ذریعے یہ پیغام پورے معاشرے میں عام کیا جاتا ہے۔

  • دینی شعور کی بیداری:

    یہ تقریبات لوگوں کو اسلامی تاریخ اور اقدار کے قریب لاتی ہیں، جس سے ان میں عشقِ مصطفیٰ ﷺ کا جذبہ بیدار ہوتا ہے۔ یہ جذبہ ہماری اخروی نجات کا ذریعہ بن سکتا ہے۔


میلاد کس طرح منائیں؟ روحانی اور عملی تیاری

میلاد النبی ﷺ کو صرف ظاہری رسومات تک محدود نہ رکھیں، بلکہ اسے روحانی بیداری اور سیرتِ مصطفیٰ ﷺ سے گہرا تعلق قائم کرنے کا ذریعہ بنائیں۔

1. روحانی اور ذاتی تیاری

  • نیت کی اصلاح: سب سے پہلے یہ نیت کریں کہ میلاد محض رسول اللہ ﷺ کی محبت، تعظیم اور اطاعت کے لیے منایا جا رہا ہے، نہ کہ دکھاوے کے لیے۔

  • توبہ و استغفار: میلاد سے قبل کثرت سے استغفار کریں، کیونکہ روحانی روشنی کے لیے دل کو گناہوں کے بوجھ سے پاک کرنا ضروری ہے۔

  • قرآن سے تعلق: قرآن کریم کی تلاوت کریں، خاص طور پر ان آیات کی جو آپ ﷺ کی شان اور رحمت للعالمین ہونے کا ذکر کرتی ہیں (جیسے سورہ الاحزاب: 45-46، سورہ الانبیاء: 107، سورہ الصف: 6)۔

  • درود و سلام: میلاد کی تیاری میں روزانہ درود شریف کے وظائف بڑھائیں اور دل کو حضور ﷺ کی یاد سے معمور رکھیں۔ کتاب "آبِ کوثر” جیسے وظائف پڑھیں جو درود شریف کا جذبہ بڑھانے میں مددگار ثابت ہوسکتے ہیں۔

  • سنتوں کی تجدید: میلاد کا بہترین تحفہ یہ ہے کہ آپ ﷺ کی سنتوں کو اپنی زندگی کا حصہ بنائیں۔ اپنے لباس، کھانے پینے، اخلاق اور عبادات میں سنتوں کو اپنائیں۔

  • ذکر و تہجد: میلاد کی رات میں نمازِ تہجد کا اہتمام کریں اور دن میں اشراق و چاشت کی نمازیں ادا کریں۔ اگر ممکن ہو تو محفل میلاد کا اہتمام کریں، مگر اس میں سادگی اور اخلاص کا خیال رکھیں۔


2. محبت رسول ﷺ کا عملی جامہ پہنانا

محبت کا اظہار صرف زبانی نہیں بلکہ عملی ہونا چاہیے۔ اپنی زندگی میں حضور ﷺ کی تعلیمات کو نافذ کریں۔

  • سیرت کا مطالعہ: مستند سیرت کی کتب جیسے ‘سیرت رسول عربی’، ‘سیرت ابن اسحاق’، ‘سید الوری’، ‘سیرت حلبیہ’، ‘ہادی عالم’ یا ‘سیرت ابن ہشام’ کا مطالعہ کریں۔

  • اخلاقی پیروی: صبر، دیانت اور رحم دلی جیسے اخلاقِ نبوی کو اپنائیں۔

  • خیراتی سرگرمیاں: غریبوں، یتیموں اور محتاجوں کی مدد کریں، کیونکہ یہ عمل میلاد کی برکت کو بڑھا دیتا ہے اور سیرتِ نبوی پر عمل کا ثبوت ہے۔ شجرکاری اور صفائی جیسی مثبت سرگرمیوں میں بھی حصہ لیں۔

  • بچوں کی تربیت: بچوں کو کہانیاں، کوئز اور نعتوں کے ذریعے اس محبت سے روشناس کرائیں تاکہ ان کے دلوں میں بھی عشقِ مصطفیٰ ﷺ پیدا ہو۔

  • علمی استفادہ: مستند علماء اور نعت خوانوں سے رہنمائی حاصل کریں۔ بدعقیدہ اور گمراہ لوگوں کی ہم نشینی اور ان کے بیانات سے دور رہیں۔


3. میلاد کی تقریبات اور سماجی آداب

  • شرعی حدود کی پابندی: آج کے دور میں غیر شرعی رسومات اور بدعات سے بچنا بہت ضروری ہے۔ جلوسوں میں قوالیوں پر ناچنا یا عورتوں کا بے پردہ ہو کر باہر آنا شرعاً درست نہیں اور کئی فتنوں کا سبب بن سکتا ہے۔

  • مقصدیت اور سادگی: اپنی تقریبات کو سادہ اور بامقصد رکھیں۔ میلاد منانے کا مقصد رسول ﷺ کی تعلیمات پر عمل کرنا ہے نہ کہ فضول خرچی۔

  • ڈیجیٹل میڈیا کا استعمال: سوشل میڈیا کو مثبت مقصد کے لیے استعمال کریں۔ مستند علماء کے سیرت پر مبنی پیغامات اور نعتیں شیئر کریں۔

  • خاندانی اور کمیونٹی تعاون: گھروں کی سادہ سجاوٹ کریں، اہل خانہ کے ساتھ بیٹھ کر سیرت کا ذکر کریں۔ رشتہ داروں اور ہمسایوں کو بھی ان سرگرمیوں میں شامل کریں تاکہ اجتماعی محبت کا ماحول پیدا ہو۔


4. میلاد کے بعد کی عملی زندگی

میلاد النبی ﷺ کا سب سے بڑا مقصد یہ ہے کہ آپ کی سیرت کو صرف ایک دن کے لیے نہیں بلکہ سال بھر کی زندگی کا حصہ بنایا جائے۔ مستقل بنیادوں پر دینی تعلیم حاصل کریں، سیرت کا مطالعہ جاری رکھیں اور ہر عمل میں اعتدال اور سنت کی پابندی کو مدنظر رکھیں۔

یاد رکھیں: میلاد نبی کریم ﷺ سے محبت اور ان کی تعلیمات پر عمل کے لیے منایا جاتا ہے، اور یہی اس کا حقیقی مقصد ہے۔

ایک تبصرہ چھوڑیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Subscribe Now

We let you receive the latest information on Islam, as well as offers, tips, and updates.
اوپر تک سکرول کریں۔