مقدمہ: ایک عام مغالطے کا ازالہ
میڈیا پر اور نجی محفلوں میں یہ غلط فہمی پھیلانے کی ناکام کوشش کی جاتی ہے کہ چونکہ "نماز کے اندر صرف آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر درود آیا ہے اس لیے ایک تو وہ بقیہ تمام شخصیات سے افضل ہیں اور دوسرا جن کا نماز میں درود شریف پڑھنے کا ذکر ہو وہ دوسروں کی بھلا کیسے بیعت و اطاعت کر سکتے ہیں؟” گو کہ اس مغالطے کی بنیاد پر کوئی نص و دلیل موجود نہیں، لیکن پھر بھی ہم نے اس کا باقاعدہ جواب لکھ دیا ہے تاکہ اتمام حجت ہو جائے۔ ہم مذکورہ بالا مغالطوں کا آپریشن یہاں کریں گے جو مندرجہ ذیل ترتیب سے پیش کیا جائے گا:
- نماز کے درود میں آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے مراد صرف اولاد نہیں اور نہ ساری اولاد مراد ہے بلکہ جملہ صحابہ کرام بھی ہیں۔
- صحابہ کرام پر درود شریف قرآن مجید سے دلائل۔
- صحابہ کرام پر درود احادیث مبارکہ سے۔
- صحابہ کرام پر نماز و غیر نماز میں سلام بھیجنے کا ثبوت (فریق کی کتب سے)
1. نماز کے درود میں لفظ ‘آل محمد ﷺ’ میں صحابہ کرام شامل ہیں
سب سے پہلے ہم اپنے قارئین کو بتاتے چلیں کہ نماز کے اندر جو درود ابراہیمی تشہد کے بعد پڑھا جاتا ہے، اس میں لفظ "آل محمد” سے ہر گز مطلقاً تخصیص کے ساتھ صرف اولاد ہی مراد نہیں اور نہ ساری اولاد مراد ہے۔ اس کی تفصیل ملاحظہ فرمائیں۔
‘آل محمد’ کے مصداق: لغوی لحاظ سے
اگر آل محمد جو درود شریف میں موجود ہے اس سے صرف اولاد رسول ﷺ مراد لی جائے تو پھر جناب علی علیہ السلام اور آپ کی دوسری ازواج سے جو اولاد ہے وہ سب درود شریف سے خارج ہو جائیں گے کیوں کہ آپ علیہ السلام اولاد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہیں ہیں بلکہ آپ اولاد جناب ابو طالب ہیں۔
آل کا لفظ اصل میں اہل تھا۔ ھا ہمزہ سے بدل کر دو ہمزے ہوئے اور دوسرے ہمزہ کو الف سے بدل کر آل بنایا گیا۔ علامہ ابن منظور افریقی مصری آل کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
واٰل الرَّجُلِ اَھْلُہٗ واٰلُ اللّٰہِ وَاٰلُ رَسُوْلِہٖ اَوْلِیَائُہٗ اَصْلُھَا اَھْلُُُٗ ثُمَّ اُبْدِلَتِ الْھَائُ ھَمْزَۃً فَصَارَتْ فِی التَّقْدِیْرِأَ أْلُٗ فَلَمَّا تَوَالَتِ الْھَمْزَ تانِ اَبْدَلُوْاالثَّانِیَۃَ اَلِفًا کَمَا قَالُوْااٰدَمُ وَاٰخَرُ۔ 📕لسان العرب ۔جلد 11صفحہ نمبر 30
آدمی کی آل اس کے اہل وعیال ہوتے ہیں۔ اللہ اور اس کے رسولﷺ کی آل ان کے دوستوں کو کہا جاتا ہے۔ یہ لفظ دراصل اہل تھا پھر ھا کو ہمزہ سے تبدیل کیا گیا تو أأل ہو گیا۔ جب لگاتار دو ہمزے آئے تو انہوں (اہل عرب) نے دوسرے ہمزے کو الف میں تبدیل کر دیا جیسا کہ آدم اور الآخر۔
اٰلُ الرَّجُلِ: اَھْلُہٗ وَعَیَالُہٗ وَاَتْبَاعُہٗ وَاَنْصَارُہٗ
یعنی کسی آدمی کی آل کے معنی ہیں: اس کے بال بچے، اس کے پیروکار اور اس کے مددگار۔
راغب اصفہانی لکھتے ہیں:
اَلْاٰ لُ: بعض کہتے ہیں کہ آل اصل میں اَھْلُٗ ہے۔ کیونکہ اس کی تصغیر اَھَیْلُٗ آتی ہے۔ مگر یہ لفظ انسانوں سے کسی عَلَمْ کی طرف مضاف ہوتا ہے۔ لہذا اسم نکرہ یا زمان و مکان کی طرف اس کی اضافت جائز نہیں۔ اس بنیاد پر آلُ فُلَانٍ کا محاورہ تو استعمال ہوتا ہے لیکن اٰلُ زَمَانٍ یا اٰلُ مَوْضَعٍ نہیں بولا جاتا۔ اور نہ ہی اٰلُ الْخَیَّاطِ (درزی کا خاندان) بلکہ یہ ہمیشہ صاحب شرف اور افضل ہستی کی طرف مضاف ہوتا ہے جیسے اٰلُ اللّٰہ وَ اٰلُ السُّلْطَانِ۔ مگر اہل کا لفظ ہر ایک کی طرف مضاف ہوتا ہے۔ چنانچہ جس طرح اَھْلُ زَمَنِ کَذَا وَ بَلَدِ کَذَا اسی طرح اَھْلُ اللّٰہِ وَاَھْلُ الْخَیاَّطِ بھی کہہ دیتے ہیں۔ بعض نے کہا ہے کہ اٰلُ النبیﷺ سے آپ کے رشتہ دار مراد ہیں۔ اور بعض کے نزدیک اس سے وہ لوگ مراد ہیں جنہیں علم و معرفت کے لحاظ سے آپؐ کے ساتھ خصوصی تعلق ہو۔
تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ اہل دین دو قسم پر ہیں۔ ایک وہ جو علم وعمل کے لحاظ سے راسخ القدم ہوتے ہیں۔ ان پر اٰلُ النَّبِیِّ وَاُمَّتَہٗ دونوں لفظ بولے جاسکتے ہیں۔ دوسرے وہ لوگ جن کا علم سراسرتقلیدی ہوتا ہے۔ انہیں اُمت محمدیہ علیہ الصلوٰۃ والسلام تو کہا جاتا ہے لیکن آل محمدؐ نہیں کہہ سکتے۔ اس سے معلوم ہوا کہ امۃ النبی واٰلہ میں عموم وخصوص کی نسبت ہے؛ یعنی کُلُّ اٰلٍ لِّلْنَّبِیِّ اُمَّتُہٗ وَلَیْسَ کُلُّ اُمَّۃٍ اٰلُ لَّہٗ
حضرت جعفر صادقؒ سے کسی نے دریافت کیا کہ لوگ تمام مسلمانوں کو آل النبی ؐ میں داخل سمجھتے ہیں تو انہوں نے فرمایا یہ صحیح بھی ہے اور غلط بھی۔ سائل نے عرض کی یہ کیسے؟ فرمانے لگے غلط تو اس لیے کہ تمام امت آل النبیؐ میں داخل نہیں ہے۔ (یعنی نسب کے لحاظ سے دیکھا جائے تو) اور صحیح اس لیے کہ اگر وہ شریعت کے کماحقہ پابند ہو جائیں تو آل النبیؐ کہا جا سکتا ہے۔ 📕مفردات القرآن اردو۔ص ۷۵
مختصر یہ کہ چاہے وہ اللہ کے نبی حضرت نوحؑ کا حقیقی بیٹا کنعان ہو۔ بخلاف اس کے کہ جو صاحب ایمان ہے اور اس کے عقائد و نظریات و اعمال اسلام سے میچ ہیں تو وہ اسلام کی نسبت سے وہ آل رسولؐ میں داخل ہے۔
‘آل’ لفظ میں پیروکار اور ساتھی شامل ہیں: قرآنی دلیل
چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ:
وَإِذْ فَرَقْنَا بِكُمُ الْبَحْرَ فَأَنْجَيْنَاكُمْ وَأَغْرَقْنَا آلَ فِرْعَوْنَ وَأَنْتُمْ تَنْظُرُونَ (اور جب ہم نے تمہارے لیے سمندر کو پھاڑ دیا پھر تمہیں تو بچا لیا اور تمہارے دیکھتے دیکھتے آل فرعون کو ڈبو دیا) 📕سورة البقرة آیت نمبر 50)
یہ بات مسلم ہے کہ فرعون کی کوئی اولاد نہیں تھی لیکن اس کے باوجود اللہ تعالیٰ آل فرعون فرما رہا ہے تو اس کا واضح صاف مطلب جو سب کو مسلم ہے وہ فرعون کے ماننے والے ہیں اس پر ایمان لانے والے ہیں۔
اب جس طرح ابو لہب اور ابو جہل ذریت ابراہیم علیہ السلام میں ہونے کے باوجود، یہاں درود ابراہیمی میں ابراہیم علیہ السلام کی آل میں شامل نہیں، اسی طرح اولاد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں سے ہونے کے باوجود بہت سے اس درود ابراہیمی میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی آل میں شامل نہیں جو آج کل موجود ہیں جن کے عقائد و اعمال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت کے خلاف ہیں ۔
امام جعفرؒ کے نزدیک ‘آل محمد’ میں پیروکار بھی شامل ہیں
"امام جعفر رحمہ اللہ نے فرمایا: ایک آدمی نے کہا: «اللہُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَأَهْلِ بَيْتِ مُحَمَّدٍ» تو ابو عبداللہ علیہ السلام نے اس سے فرمایا: اے شخص! تم نے ہمارے لیے تنگی کر دی ہے، کیا تم نہیں جانتے کہ اہل بیت پانچ افراد ہیں جو کساء (چادر) کے اہل ہیں آدمی نے کہا: میں کیا کہوں؟ تو انہوں نے فرمایا: کہو: «اللہُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ» تو ہم اور ہماری پیرو کار بھی اس میں شامل ہو جائیں گے۔” 📕 ثواب الاعمال للصدوق جلد اول باب من صلی النبی صلی اللہ علیہ وسلم وعلی آلہ صفحہ نمبر 435 رقم روایت نمبر 603 تحقیق شیخ احمد ماخوزی تخریج: وسنده حسن كالصحيح ، رجاله ثقات
اس روایت سے ثابت ہوا کہ امام صاحب کے بقول لفظ آل محمد میں پیروکار بھی شامل ہیں اولاد کی تخصیص نہ رہی۔ یہ تخصیص عقل و نقل کے عین مطابق ہے۔
‘آل محمد’ میں صحیح العقیدہ مومن شامل ہیں
جناب جابر بن عبداللہ علیہ السلام سے:
- أخبرنا أبو سعد الماليني، أنبأ أبو أحمد بن عدي، ثنا محمد بن إبراهيم العقيلي، ثنا أحمد بن الفرات، ثنا أبو داود، ثنا عبد الرحمن بن مهدي، عن الحسن بن صالح، عن عبد الله بن محمد بن عقيل، عن جابر بن عبد الله قال : آل محمد ، أمته . کو ابو سعد المالنی نے ” حضرت جابر بن عبداللہ علیہ السلام فرماتے ھیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی آل ان کی (صحیح العقیدہ)امت ہے” 📕سنن کبریٰ بیہقی جلد دوم کتاب الصلاۃ رقم 2872.
حضرت انس علیہ السلام سے روایت ہے کہ:
عَنْ أَنَسٍ رضی الله عنه، قَالَ: سُئِلَ رَسُولُ اﷲِ صلیٰ الله عليه وآله وسلم مَنْ آلُ مُحَمَّدٍ؟ فَقَالَ: کُلُّ تَقِيٍّ. ’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوال کیا گیا، آل محمد کون ہیں؟ تو آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: (میری امت کا) ہر پرہیزگار میری آل ہے۔‘‘ 📕طبراني، المعجم الأوسط، 3: 338، رقم: 3332، دار الحرمين القاهرة هيثمي، مجمع الزوائد، 10: 269، بيروت، القاهرة: دار الکتاب۔
درود میں ‘آل محمد’ میں صحیح العقیدہ مومن اور صحابہ کرام شامل ہیں
درود میں آل محمد میں صحیح العقیدہ مومن شامل ہیں اور اس صف کے اولین صحابہ کرام اور اصحاب کساء ہیں اسلاف امت سے۔
چنانچہ امام نوویؒ لکھتے ہیں:
واختلف العلماء فی آل النبی ﷺ علی اقوال اظہرہا وہو الاختیار الازہری وغیرہ من المحققین انہم جمیع الامۃ والثانی بنوہاشم وبنو المطلب والثالث اہل بیتہ ﷺ وذریتہ "علماء نے آل نبی ﷺ کے معنوں میں اختلاف کیا ہے۔ اس سلسلہ میں کئی اقوال وارد ہیں ، ان میں راجح قول وہ ہے جسے ازہری اور دوسرے محققین نے اختیار کیا ہے کہ آل سے مراد تمام امت ہے” 📕صحیح مسلم شرح نووی، باب الصلاۃ علی النبی)
اسی قول (راجح) کو امام مالک، حافظ ابن عبدالبر، احناف اور امام ابن تیمیہ وغیرہ نے بھی اختیار کیا ہے۔ امام شافعی کے بعض اصحاب نے بھی اسی قول کو اختیارکیا ہے۔ (تفصیل کے لیے دیکھیے جلاء الافہام لابن قیم، باب السادس، فصل: وہل یصلی علی آلہ منفردین)۔
اسی طرح عرب اسکالر شیخ ابن عثیمینؒ نے فرمایا:
اذا ذکر الآل وحدہ فالمراد جمیع اتباعہ علی دینہ "جب لفظ آل تنہا مذکور ہو تو اس سے مراد جملہ متبعین دین ہیں” 📕مجموع فتاویٰ فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمین، باب صلاۃ التطوع،۱۵۶، سعودی عرب، ۱۹۹۹)
درود ابراہیمی میں آل محمد سے اگر صرف بنو ہاشم و بنو مطلب مراد لیے جائیں، جو نسباً آل محمد ہیں، تو اس میں نیک و بد اور مومن و کافر سب شامل ہو جائیں گے۔ دوسری طرف آل ابراہیم میں مغضوب و ضالین بھی شریک ہو جائیں گے جو نسباً آل ابراہیم ہیں۔
حالاں کہ قرآن میں فرمایا گیا:
إِنَّ أَوْلَی النَّاسِ بِإِبْرَاہِیمَ لَلَّذِینَ اتَّبَعُوہُ وَہَـذَا النَّبِیُّ وَالَّذِینَ آمَنُواْ وَاللّہُ وَلِیُّ الْمُؤْمِنِینَ "ابراہیم سے قرب رکھنے والے وہ لوگ ہیں جو ان کی پیروی کرتے ہیں اور پیغمبر آخرالزماں اور وہ لوگ جو ایمان لائے ہیں اور اللہ مومنوں کا کارساز ہے” 📕آل عمران:۶۸)
لہٰذا آل ابراہیم و آل محمد میں صرف وہ لوگ شامل ہیں جو متبع شریعت ہیں، نہ کہ وہ جو دین میں غلو کرتے ہیں اور آیات الٰہیہ میں تحریف؛ بلکہ وہ متبع رسول ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے اس پر جس اللہ نے اتارا اور اپنے گزرے ہوئے بھائیوں کے لیے یہ دعا کرتے ہیں:
رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلإِخْوَانِنَا الَّذِینَ سَبَقُونَا بِالإِیمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِی قُلُوبِنَا غِلّاً لِّلَّذِینَ آمَنُوا "اے ہمارے رب! ہماری مغفرت فرما اور ہمارے ان دینی بھائیوں کی جو ہم سے پہلے گذر چکے اور نہ پیدا فرما ہمارے دلوں میں ایمان والوں کے خلاف کسی طرح کا بغض)۔” 📕سورہ حشر آیت نمبر 10.
علامہ سید احمد بن محمد بن اسماعیل الطحطاوی الحنفیؒ (سال وفات: 1231ھ) فرماتے ہیں:
"اللهم صل على محمد و على آل محمد” ذكره القاسي وغيره، والمراد بالآل: هنا سائر أمة الإجابة مطلقا، وقوله صلى الله عليه وسلم: "آل محمد كل تقي” حمل على التقوى من الشرك” یعنی: درود پاک "اللهم صل علی محمد و على آل محمد” میں لفظ آل سے مراد مطلقا ساری امت اجابت ہے اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان: ہر متقی شخص آل محمد میں داخل ہے۔ کا مطلب یہ ہو گا کہ شرک سے بچنے والا شخص بھی متقی ہے، لہذا ساری امت میں مسلمان آل میں شامل ہے۔ 📕حاشیہ طحطاوی علی المراقی صفحہ نمبر 12
جناب جعفر صادق رحمہ اللہ تعالی عنہ ان اولی الناس بابراہیم… کی تفسیر میں جناب عمر بن یزید کو فرماتے ہیں کہ:
اللّٰہ کی قسم۔ تم بھی آل محمد میں سے ہو ۔۔۔ آیت سے استدلال کر کے امام نے اس لیے فرمایا کہ جناب عمر بن یزید جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع و پیروی کرنے والوں میں شامل ہیں۔ 📕تفسیر قمی تفسیر سورت آل عمران صفحہ نمبر 100,101. آیت نمبر 68.
ان ہی روایات کی روشنی میں اولین مصداق آل محمد میں اصحاب رسول و اہل بیت رسول اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی متقی اولاد شامل ہیں ۔
‘آل محمد’ میں ابوبکر صدیقؓ شامل ہیں: امام باقرؒ کا عقیدہ
حدثنا علي حدثنا أبي حدثنا إبراهيم بن شريك حدثنا عقبة بن مكرم حدثنا ابن عيينة حدثنا جعفر بن محمد عن أبيه قال كان آل أبي بكر الصديق يدعون على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم آل محمد. امام جعفر صادق رحمہ اللہ اپنے والد امام باقر رحمہ اللہ سے بیان کرتے ہیں کہ: نبی کریمﷺ کے دور مبارک میں حضرت ابو بکر صدیق علیہ السلام کے گھر والوں کو آل محمدﷺ کہا جاتا تھا 📕فضائل أبي بكر الصديق برقم:37 ، امام ابن العشاری
جب جناب ابوبکر صدیق علیہ السلام کے گھر والوں کو آل محمد کہا جاتا تھا تو جناب ابوبکر صدیق علیہ السلام اسی گھر لے ہی فرد تھے۔ پتا چلا نسبی آل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جناب باقر رحمہ اللہ کے مطابق جناب ابوبکر صدیق علیہ السلام آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔
2. صحابہ کرام پر درود بھیجنے کا ثبوت: قرآنی دلائل
قرآن مجید میں نبی کریم ﷺ پر درود کے لیے لفظ ’’صلاۃ‘‘ استعمال کیا گیا ہے:
إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا﴿56﴾ "اللہ تعالی اور اس کے فرشتے نبی اکرم پر ’’صلاۃ‘‘ بھیجتے ہیں، تو اے ایمان والو! تم بھی ان پر ’’صلاۃ‘‘ اور سلام بھیجو‘‘
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں یہی حکم صحابہ کرام کے لیے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
پہلی آیت سے ثبوت (سورۃ التوبۃ: 103)
خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلَاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ "(اے نبی ! آپ ان صحابہ کے اموال سے زکوٰۃ وصول کیجئے اور اس صدقہ کے ذریعہ ان (کے اموال) کو پاک کیجئے اور ان (کے نفوس) کا تزکیہ کیجئے، پھر ان پر ’’صلاۃ‘‘ بھی بھیجئے۔ بلاشبہ آپ کی ’’صلاۃ‘‘ ان کے لیے تسکین کا باعث ہے اور اللہ سب کچھ سننے والا اور جاننے والا ہے” 📕سورۃ التوبۃ آیت نمبر 103
بات واضح ہے کہ:
- نبی مکرم ﷺ کی لیے بھی قرآن میں ( صَلِّ عَلَيْهِ ) کا حکم ہے۔
- اور صحابہ کرام کے لیے بھی ( صَلِّ عَلَيْهِمْ ) کے الفاظ سے حکم ہے۔
دوسری آیت سے ثبوت (سورہ احزاب: 43)
هُوَ الَّذِي يُصَلِّي عَلَيْكُمْ وَمَلَائِكَتُهُ لِيُخْرِجَكُم مِّنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ وَكَانَ بِالْمُؤْمِنِينَ رَحِيمًا. "وہی ہے جو تم پر درود بھیجتا ہے اور اس کے فرشتے بھی، تاکہ تمہیں اندھیروں سے نکال کر نور کی طرف لے جائے اور وہ مومنوں پر بڑی مہربانی فرمانے والا ہے۔” 📕سورہ احزاب آیت نمبر 43۔
اس آیت کے شان نزول کے متعلق حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے آیت ( اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓىٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّ ) نازل فرمائی تو مہاجر اور انصار صحابہ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے عرض کی: یا رسولَ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ! یہ شرف تو خاص آپ کے لیے ہے، لیکن ا س میں ہمارے لیے کوئی فضیلت نہیں (یعنی صلوۃ سے ہمیں تو حصہ نہیں ملا)۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور ارشاد فرمایا’’وہی اللہ عزَّوَجَلَّ ہے جوتم پر صلوٰۃ یعنی رحمت بھیجتا ہے اور اس کے فرشتے تم پر صلوٰۃ بھیجتے ہیں یعنی تمہارے لیے بخشش کی دعا کرتے ہیں۔
اسی آیت کے تحت یہ بھی موجود ہے کہ:
امام مجاہد کا قول ہے کہ جب آیت ” إن الله وَمَلَئِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ ” نازل ہوئی تو حضرت ابو بکر علیہ السلام نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو کوئی ایسا شرف خیر نہیں بخشا جس میں اس نے ہمیں شریک نہ کیا ہو اس پر یہ آیت نازل ہوئی هُوَ الَّذِي يُصَلِّى عَلَيْكُمْ وَمَلَئِكُتُهُ۔ 📕 اسباب نزول امام ابو الحسن علی بن احمد الواحدی ۔۔
اس آیت میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ اولین مخاطب ہیں جن پر اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں ۔
تیسری آیت سے ثبوت (سورہ البقرہ: 157)
اُولٰٓىٕكَ عَلَیْهِمْ صَلَوٰتٌ مِّنْ رَّبِّهِمْ وَ رَحْمَةٌ وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُهْتَدُوْنَ "یہ وہ لوگ ہیں جن پر ان کے رب کی طرف سے درود ہیں اور رحمت اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں” 📕سورہ البقرہ آیت نمبر 157.
یہ آیت بھی ہمارے مدعا پر دال ہے۔
3. صحابہ کرام پر درود بھیجنے کا ثبوت: احادیث مبارکہ سے
پہلی حدیث سے ثبوت (صحیح بخاری: 1497)
حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي أَوْفَى ، قَالَ : كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَتَاهُ قَوْمٌ بِصَدَقَتِهِمْ ، قَالَ : اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى آلِ فُلَانٍ ، فَأَتَاهُ أَبِي بِصَدَقَتِهِ ، فَقَالَ : اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى آلِ أَبِي أَوْفَى .
جناب عبد اللہ بن ابی اوفی علیہ السلام فرماتے ھیں کہ:
"جب کوئی قوم اپنی زکوٰۃ لے کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوتی تو آپ ان کے لیے درود کی بھیجتے فرماتے اے اللہ ! آل فلاں کو خیر و برکت عطا فرما ‘ میرے والد بھی اپنی زکوٰۃ لے کر حاضر ہوئے تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اے اللہ ! آل ابی اوفی پر درود کی دعا فرمائی”
📕صحیح بخاری رقم حدیث نمبر 1497
دوسری حدیث سے ثبوت (سنن ابی داؤد: 1533)
امام ابو داؤد رحمہ اﷲ نے ’’ترجمۃ الباب‘‘ قائم کیا ہے:الصَّلَاةِ عَلَی غَيْرِ النَّبِيِّ صلیٰ الله عليه وآله وسلم.’’حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سوا دوسرے پر درود بھیجنا۔‘‘ اور اس باب کے ضمن میں درج ذیل حدیث مبارکہ نقل کی ہے:
عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اﷲِرضی الله عنهما أَنَّ امْرَأَةً قَالَتْ لِلنَّبِيِّ صلیٰ الله عليه وآله وسلم صَلِّ عَلَيَّ وَعَلَی زَوْجِي فَقَالَ النَّبِيُّ صلیٰ الله عليه وآله وسلم صَلَّی اﷲُ عَلَيْکِ وَعَلَی زَوْجِکِ. ’’حضرت جابر بن عبد اللّٰہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک عورت حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض گزار ہوئی کہ میرے لیے اور میرے خاوند کے لئے دعا فرمائیں تو حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ﷲ تعالیٰ تم پر اور تمہارے خاوند پر درود (رحمت) نازل فرمائے۔‘‘ 📕أبي داؤد، السنن رقم حدیث نمبر 1533،صحیح ابن حبان، الصحيح جلد سوم رقم: 916،
تیسری حدیث سے ثبوت (سنن ابی داؤد: 5185)
حَدَّثَنَا هِشَامٌ أَبُو مَرْوَانَ وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى الْمَعْنَى قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ قَالَ سَمِعْتُ يَحْيَى بْنَ أَبِي كَثِيرٍ يَقُولُ حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَسْعَدَ بْنِ زُرَارَةَ عَنْ قَيْسِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ زَارَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَنْزِلِنَا فَقَالَ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ فَرَدَّ سَعْدٌ رَدًّا خَفِيًّا قَالَ قَيْسٌ فَقُلْتُ أَلَا تَأْذَنُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ ذَرْهُ يُكْثِرُ عَلَيْنَا مِنْ السَّلَامِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ فَرَدَّ سَعْدُ رَدًّا خَفِيًّا ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ ثُمَّ رَجَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاتَّبَعَهُ سَعْدٌ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي كُنْتُ أَسْمَعُ تَسْلِيمَكَ وَأَرُدُّ عَلَيْكَ رَدًّا خَفِيًّا لِتُكْثِرَ عَلَيْنَا مِنْ السَّلَامِ قَالَ فَانْصَرَفَ مَعَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَمَرَ لَهُ سَعْدٌ بِغُسْلٍ فَاغْتَسَلَ ثُمَّ نَاوَلَهُ مِلْحَفَةً مَصْبُوغَةً بِزَعْفَرَانٍ أَوْ وَرْسٍ فَاشْتَمَلَ بِهَا ثُمَّ رَفَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَيْهِ وَهُوَ يَقُولُ اللَّهُمَّ اجْعَلْ صَلَوَاتِكَ وَرَحْمَتَكَ عَلَى آلِ سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ
"حضرت قیس بن سعد ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے گھر ملاقات کے لیے تشریف لائے (باہر رک کر) السلام علیکم ورحمۃ اللہ کہا، سعد ؓ نے دھیرے سے سلام کا جواب دیا، قیس کہتے ہیں: میں نے (سعد سے) کہا: آپ رسول اللہ ﷺ کو اندر تشریف لانے کی اجازت کیوں نہیں دیتے؟ سعد نے کہا چھوڑو (جلدی نہ کرو) ہمارے لیے رسول اللہ ﷺ کو سلامتی کی دعا زیادہ کر لینے دو، رسول اللہ ﷺ نے پھر السلام علیکم ورحمۃ اللہ کہا، سعد نے پھر دھیرے سے سلام کا جواب دیا، پھر تیسری بار رسول اللہ ﷺ نے کہا: السلام علیکم ورحمۃ اللہ (اور جواب نہ سن کر) لوٹ پڑے، تو سعد نے لپک کر آپ کا پیچھا کیا اور آپ کو پا لیا، اور عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم آپ کا سلام سنتے تھے، اور دھیرے سے آپ کے سلام کا جواب دیتے تھے، خواہش یہ تھی کہ اس طرح آپ کی سلامتی کی دعا ہمیں زیادہ حاصل ہو جائے تب رسول اللہ ﷺ سعد کے ساتھ لوٹ آئے، اور اپنے گھر والوں کو رسول اللہ ﷺ کے غسل کے لیے (پانی وغیرہ کی فراہمی و تیاری) کا حکم دیا، تو آپ نے غسل فرمایا، پھر سعد نے رسول اللہ ﷺ کو زعفران یا ورس میں رنگی ہوئی ایک چادر دی جسے آپ نے لپیٹ لیا، پھر آپ ﷺ نے یہ کہتے ہوئے اپنے دونوں ہاتھ بلند فرمائے: «اللَّهُمَّ اجْعَلْ صَلَوَاتِكَ وَرَحْمَتَكَ عَلَى آلِ سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ» ”اے ﷲ! آل سعد بن عبادہ پر اپنی خاص درود اور رحمتیں نازل فرما۔”
📕سنن ابی داؤد رقم حدیث نمبر 5185.
چوتھی حدیث سے ثبوت (سنن ابی داؤد: 979)
حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ. ح وحَدَّثَنَا ابْنُ السَّرْحِ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي مَالِكٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ سُلَيْمٍ الزُّرَقِيِّ، أَنَّهُ قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو حُمَيْدٍ السَّاعِدِيُّ، أَنَّهُمْ قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَيْفَ نُصَلِّي عَلَيْكَ ؟ قَالَ: قُولُوا: اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَأَزْوَاجِهِ وَذُرِّيَّتِهِ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، وَبَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَأَزْوَاجِهِ وَذُرِّيَّتِهِ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ . حضرت ابوحمید ساعدی علیہ السلام نے بیان کیا کہ صحابہ نے کہا : اے اللہ کے رسول ! ہم آپ پر صلاۃ ( درود ) کیسے پڑھیں ؟ آپ نے فرمایا :’’ کہا کرو : «( اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَأَزْوَاجِهِ وَ ذُرِّيَّتِهِ ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ ، وَ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ أَزْوَاجِهِ وَ ذُرِّيَّتِهِ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ )‘‘ 📕سنن ابو داؤد رقم حدیث نمبر 979۔
اس روایت کو پیش کرنے کا مقصد یہ بھی ہے کہ درود شریف میں جو لفظ آل ہے اس سے مراد ہر گز مطلقا اولاد نہیں بلکہ آل محمد لفظ میں وسیع مفہوم و مطالب موجود ہیں جیسا کہ اس حدیث سے یہ ثابت ہوا کہ درود شریف میں صحابیت یعنی ازواج مطہرات بھی شامل ہیں اور ازواج کو کوئی اولاد نہیں کہ سکتا۔
پانچویں روایت سے ثبوت (قول البدیع: 138)
علامہ سخاوی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک روایت لائی ہے کہ:
ان رسول الله صلى الله عليه و آله وسلم قال: اللهم صل على أبي بكر فإنه يحبك ويجب رسولك اللهم صل على عمر فإنه يحبك ويحب رسولك، اللهم صل على عثمان فإنه يحبك ويحب رسولك، اللهم صل على علي فإنه يحبك ويحب رسولك اللهم صل على أبي عبيدة بن الجراح فإنه يحبك ويحب رسولك، اللهم صل على عمرو بن العاص فإنه يحبك ويحب رسولك "
رسول اللہ صلی نے دعا کی، اے اللہ ! ابو بکر پر صلوۃ (یعنی رحمت نازل فرما کہ وہ تجھ سے محبت کرتا ہے، اے اللہ ! عمر پر صلوۃ (یعنی رحمت نازل فرما کہ وہ تجھ سے اور ؟ کرتا ہے، اے اللہ ! عثمان پر صلوٰۃ (یعنی رحمت) نازل فرما کہ وہ تجھے تیر محبت کرتا ہے، اے اللہ ! علی پر صلوۃ (یعنی رحمت نازل فرما کہ وہ تجھ سے اور تیرے رسول سے محبت کرتا ہے، اے اللہ ! ابو عبیدہ بن جراح پر صلوۃ (یعنی رحمت نازل فرما کہ وہ تجھ سے محبت کرتا ہے، اے اللہ عمر بن العاص پر صلوۃ ( یعنی رحمت) نازل فرما کہ وہ تجھ سے اور تیرے رسول سے محبت کرتا ہے” 📕قول البدیع صفحہ نمبر 138
اس روایت کو ہم نے بنیادی کتب والی روایات کے شواہد میں پیش کیا ۔
چھٹی روایت سے ثبوت (الامامت و الرد علی الرافضہ: 226، کتاب السنہ: 308)
حدثنا ابو اسحاق ابراہیم بن عبداللہ حدثنا محمد بن اسحاق الثقفی حدثنا قتیبہ بن سعد حدثنا لیث بن سعد بن یزید بن الحبیب عن ابی یحامر ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال اللھم صل علی ابی بکر فانہ یحبک ویحب رسولک ، الھم صل علی عمر فانہ یحبک ویحب رسولک،الھم صل علی عثمان فانہ یحبک ویحب رسولک، الھم صل علی عبیدہ بن الجراح فانہ یحبک ویحب رسولک، الھم صل علی عمرو بن العاص فانہ یحبک ویحب رسولک
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا” اے اللہ درود بھیج جناب ابوبکر علیہ السلام پر وہ تم سے اور تمہارے رسول سے محبت کرتا ہے ، اے اللہ درود بھیج جناب عمر فاروق علیہ السلام پر وہ تم سے اور تمہارے رسول سے محبت کرتا ہے ، اے اللہ درود بھیج جناب عثمان غنی علیہ السلام پر وہ تم سے اور تمہارے رسول سے محبت کرتا ہے ، اے اللہ درود بھیج جناب عبیدہ بن الجراح علیہ السلام پر ہو تم سے اور تمہارے رسول اللہ محبت کرتا ہے ، اے اللہ درود بھیج جناب عمرو بن العاص علیہ السلام پر جو تم سے اور تمہارے رسول سے محبت کرتا ہے "
📕 الامامت و الرد علی الرافضہ امام ابی نعیم بن اصبھانی صفحہ نمبر 226,رقم حدیث نمبر 12.
📕کتاب السنہ امام ابنِ خلال صفحہ نمبر 308,رقم حدیث نمبر 379۔
اللہ کا نیک مومنین پر درود بھیجنے کا ثبوت
- حدثنا يحيى بن سليمان، قال: حدثني ابن وهب، قال: اخبرني عمرو بن الحارث، عن دراج، ان ابا الهيثم حدثه، عن ابي سعيد الخدري، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: ”ايما رجل مسلم لم يكن عنده صدقة، فليقل في دعائه: اللهم صل على محمد، عبدك ورسولك، وصل على المؤمنين والمؤمنات، والمسلمين والمسلمات، فإنها له زكاة.“
سیدنا ابوسعید علیہ السلام سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس مسلمان آدمی کے پاس صدقہ کرنے کے لیے کچھ نہ ہو تو وہ اپنی دعا میں کہے: اے اللہ تو رحمت بھیج محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بندے اور رسول پر، اور مومن مردوں اور مومن عورتوں پر، نیز مسلمان مردوں اور عورتوں پر رحمت نازل فرما۔ تو یہ اس کے لیے زکاۃ ہو گی۔“
📕 صحیح ابن حبان: 903 و مستدرک حاکم جلد چہارم صفحہ نمبر 130 و البيهقي رقم 1097، مسند أبويعلى رقم 1397،الادب المفرد للبخاری رقم 640۔ - حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ قَالَ : حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ قَالَ : حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلِّونَ عَلَى الَّذِينَ يَصِلُونَ الصُّفُوفَ ، وَمَنْ سَدَّ فُرْجَةً رَفَعَهُ اللَّهُ بِهَا دَرْجَةً»
حضرت عائشہ سلام اللہ علیہا سے روایت ہے ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ اللہ تعالیٰ ان لوگوں پر درود بھیجتا ہے اور فرشتے ان کے لیے دعائے خیر کرتے ہیں جو صفوں کو ملاتے ہیں اور جو شخص صف کا شگاف پر کرے گا ، اس کے بدلے اللہ تعالیٰ اس کا درجہ بلند کر دے گا ۔‘‘
سنن ابن ماجه رقم حدیث نمبر 995۔ - حَدَّثَنَا بَكْرُ بْنُ خَلَفٍ أَبُو بِشْرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَامِرِ بْنِ رَبِيعَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «مَا مِنْ مُسْلِمٍ يُصَلِّي عَلَيَّ، إِلَّا صَلَّتْ عَلَيْهِ الْمَلَائِكَةُ مَا صَلَّى عَلَيَّ، فَلْيُقِلَّ الْعَبْدُ مِنْ ذَلِكَ أَوْ لِيُكْثِرْ»
حضرت عامر بن ربیعہ ؓ سے روایت ہے، نبی ﷺ نے فرمایا: ’’جو مسلمان مجھ پر درود پڑھتا ہے، فرشتے اس وقت تک اس کے لئے درود پڑھتے رہتے ہیں جب تک وہ مجھ پر درود پڑھتا رہتا ہے۔ اب بندہ چاہے یہ عمل کم کرے یا زیادہ کر لے (اس کی مرضی ہے۔)‘‘📕سنن ابن ماجہ رقم حدیث نمبر 907.
4. صحابہ کرام پر نماز و غیر نماز میں سلام بھیجنے کا ثبوت
نماز کے تشہد میں یہ الفاظ ہر مسلمان پڑھتا ہے: السلام علینا وعلی عباداللہ الصالحین۔ اس سے اولین مصداق اس امت مسلمہ میں اصحاب و اہلِ بیت رسول ہیں۔
قرآن مجید سے دلیل (سورت نمل: 59)
اللّٰہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے کہ: قل الحمداللہ وسلام علی عبادہ الذین اصطفی۔۔۔ 📕سورت نمل آیت نمبر 59. ترجمہ۔ کہ دیجیے تمام تر تعریف اللّٰہ تعالیٰ کے لیے ہے اور اس کے چنے ہوئے بندوں پر سلام ہو۔ القرآن الکریم سورت نمل
اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں مفسر قرآن صحابی رسول حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ:
اصحاب محمد اصطفاھم اللّٰہ لنبیہ علیہ السلام۔ اللّٰہ نے اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے نبی کے لیے چنا۔ 📕الاستیعاب جلد اول صفحہ نمبر 22۔
اور اسی طرح جناب عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت میں بھی ہے کہ:
حدثنا أبو بكر حدثنا عاصم عن زر بن حبيش عن عبد الله بن مسعود قال إن الله نظر في قلوب العباد فوجد قلب محمد صلى الله عليه وسلم خير قلوب العباد فاصطفاه لنفسه فابتعثه برسالته, ثم نظر في قلوب العباد بعد قلب محمد فوجد قلوب أصحابه خير قلوب العباد فجعلهم وزراء نبيه يقاتلون على دينه فما رأى المسلمون حسنا فهو عند الله حسن وما رأوا سيئا فهو عند الله سيئ
سیدنا عبداللہ بن مسعود علیہ السلام فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے دلوں پر نظر ڈالی تو اس نے قلب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تمام انسانوں کے قلوب میں بہتر پایا، اس لیے اس نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے لیے منتخب کر لیا اور ان کو رسالت کے ساتھ مبعوث کیا۔ پھر اس نے اس دل کے انتخاب کے بعد باقی بندوں کے دلوں پر نظر ڈالی اور اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قلوب کو تمام انسانوں کے قلوب سے بہتر پایا، اس لیے اس نے انہیں اپنے نبی کے وزراء ( اور ساتھی) بنا دیا،جو اس کے دین کے لیے قتال کرتے ہیں۔ پس مسلمان جس بات کو بہتر سمجھیں وہ اللہ کے ہاں بھی بہتر ہی ہوتی ہے اور مسلمان جس بات کو برا سمجھیں وہ اللہ کے ہاں بھی بری ہی ہوتی ہے۔ 📕مسند احمد-3600-سندہ حسن-مکتبہ رحمانیہ،اردو نسخہ) طبرانی ،مجمع الزوائد جلد دہم،الاستیعاب جلد اول صفحہ نمبر 125.
امام ابنِ کثیر رحمہ اللہ تعالیٰ عنہ سورہ نمل کی مندرجہ بالا آیت کے تحت فرماتے ہیں کہ:
"بر گزیدہ بندوں سے مراد اصحاب رسول ہیں اور خود انبیاء علیہم السلام بطور اولی اس میں داخل ہیں” 📕تفسیر ابن کثیر جلد چہارم صفحہ 172.
امامیہ کتب سے مزید تائید
اسی طرح امامیہ کتب میں نماز کے تشہد میں السلام علینا وعلی عباداللہ الصالحین کے الفاظ بھی صرف اہل بیت پر سلام بھیجنے کی تخصیص اور دعویٰ کو توڑ دیتے ہیں۔
📕اصول کافی جلد دوم کتاب الفروع کتاب الصلاۃ باب تشھد صفحہ نمبر 141،تہزیب الاحکام جلد اول کتاب الصلاۃ صفحہ نمبر 219
اور یہاں پر بھی آل بمعنی ہر نیک و بد اولاد ہر گز مراد نہیں بلکہ نیک اولاد اور آپ کی پیروی کرنے والے صحابہ کرام اولین مصداق ہیں۔ انہی آیات میں آلا عباد اللہ المخلصین اس کا واضح قرینہ ہے۔
📕 الصفات آیت 128. 📕تفسیر ابنِ کثیر جلد چہارم صفحہ نمبر 369.
یقیناً آل محمد سے تمام نسبی اولاد پر بالخصوص نماز میں سلام بھیجنے کا کوئی بھی عقلمند تسلیم نہیں کرے گا کیوں کہ آج بھی آل محمد کہلانے والے ملے جلے اعمال میں موجود ہیں۔ جن میں امام الانبیاء علیہ السلام کی اتباع کی کوئی چیز نظر نہیں آئے گی۔
پس نقل اور عقل یہاں تسلیم کرنے کے لیے مجبور ہے کہ یہاں پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات، ساری صاحب زادیاں، صاحب زادے، بقیہ صالح آل اور آپ کے جملہ صحابہ کرام اولین مصداق ہیں۔
اگر معترضین اس جگہ آل بمعنی اولاد مراد لیں گے تو جناب علی رضی اللہ تعالی عنہ نماز والے درود شریف سے خارج ہو جائیں گے کیونکہ جناب علی علیہ السلام آل آبی طالب ہیں نہ کہ آل محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔
امام جعفر صادقؒ اور ‘آل محمد’ کی وسعت
جناب جعفر صادق رحمہ اللہ تعالی عنہ ان اولی الناس بابراہیم… کی تفسیر میں جناب عمر بن یزید کو فرماتے ہیں کہ:
اللّٰہ کی قسم۔ تم بھی آل محمد میں سے ہو ۔۔۔ آیت سے استدلال کر کے امام نے اس لیے فرمایا کہ جناب عمر بن یزید جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع و پیروی کرنے والوں میں شامل ہیں۔ 📕تفسیر قمی تفسیر سورت آل عمران صفحہ نمبر 100,101. آیت نمبر 68.
تنبیہ
سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ دیکھی جس میں آل محمد کی تشریح میں یہ ثابت کیا گیا ہے کہ اس سے اولاد رسول ہیں ۔ ہمیں اس پوسٹ کے جواب سے کوئی غرض نہیں نہ ہمارے مدعا کے خلاف ہے بلکہ ہم نے تو اپنی اس تحریر میں بھی یہ ثابت کیا ہے کہ آل میں اولاد بھی شامل ہے ۔ البتہ ساری اولاد مراد لینا عقل و نقل کے خلاف ہے ۔