قربانی کی اہمیت اور فضیلت
اس مکمل پوسٹ میں ہم قربانی کی شرائط، اہمیت، فضیلت اور بہت کچھ مطالعہ کریں گے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں ارشاد فرمایا ہے کہ: "ہم نے ہر امت کے لیے قربانی کو اس لیے مقرر کیا تاکہ وہ مخصوص جانوروں (اونٹ، گائے، بکرے وغیرہ) پر اللہ کا نام لیں۔” (سورۃ الحج)
اسی طرح قرآن میں ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ: "ہم نے قربانی کو دین کی ایک عظیم یادگار بنایا۔”
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے قربانی کے بارے میں دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "یہ تمہارے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے۔”
دینِ اسلام کا کئی امور میں ملتِ ابراہیمیہ سے گہرا تعلق ہے، لہٰذا قربانی کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرف منسوب کیا جاتا ہے۔ بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ اس عمل میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کے عظیم واقعے کا بھی بڑا عمل دخل ہے، اس لیے ان کی نسبت بھی اس سے جُڑی ہوئی ہے۔
قربانی کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں قیام کے دوران دس سال تک ہر سال قربانی ادا فرمائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک قربانی اپنی طرف سے کرتے اور ایک اپنی امت کی جانب سے۔ حجۃ الوداع کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سو اونٹ قربان کیے جن میں سے تریسٹھ اونٹ اپنے مبارک ہاتھوں سے ذبح فرمائے。
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کی ترغیب دیتے ہوئے اس کے بے شمار فضائل بیان فرمائے، جن میں سے چند درج ذیل ہیں:
1. عیدالاضحیٰ کے دن اللہ کے نزدیک سب سے محبوب عمل قربانی ہے۔ (ترمذی)
2. قربانی کے جانور کے ہر بال کے بدلے ایک نیکی ملتی ہے۔ (ابن ماجہ)
3. جو شخص خوش دلی اور اخلاص کے ساتھ قربانی کرے، وہ قربانی اس کے لیے دوزخ سے رکاوٹ بن جائے گی۔ (طبرانی کبیر)
4. اپنے قربانی کے جانور کو خوب کھلاؤ اور مضبوط کرو، یہ جانور قیامت کے دن پل صراط پر تمہاری سواری بنیں گے۔ (کنز العمال)
5. قربانی کا جانور اپنے کھروں سمیت مکمل طور پر میزان میں تولا جائے گا۔ (کنز العمال)
6. جانور کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے ہاں قبول ہو جاتا ہے اور گناہوں کی مغفرت کا سبب بنتا ہے۔ (طبرانی)
قربانی کے جانور کے انتخاب کی شرعی اہمیت
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ارشاد فرماتی ہیں:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب قربانی کا ارادہ فرماتے تو دو بڑے (موٹے تازے)، سینگ والے، سفید رنگ کے، ایسے مینڈھے خریدتے جو مکمل صحت مند اور خوبصورت ہوتے۔ پھر ان میں سے ایک اپنی امت کی جانب سے اور دوسرا اپنی طرف سے قربان فرماتے۔” (مسند احمد، سنن ابن ماجہ: 3122)
قربانی کے جانور کا انتخاب کرتے وقت ہمیں چاہیے کہ:
- جانور صحت مند، توانا، خوبصورت اور عیب سے پاک ہو۔
- اللہ تعالیٰ کے نام پر خالص نیت سے ذبح کیا جائے۔
- عیب دار، لاغر یا بیمار جانور قربانی کے لیے مناسب نہیں۔
- نصی جانور کی قربانی مسنون و افضل ہے۔
مالی حیثیت کے مطابق، نیک نیتی اور اخلاص سے خوبصورت اور عمدہ جانور کا انتخاب ہی قربانی کے اصل روح کے قریب ہے۔
قربانی کے جانور کی شرائط
عمر کی شرط
قربانی جیسے عظیم عبادت میں شریعتِ مطہرہ نے جہاں خلوص نیت اور عمدہ جانور کی تاکید فرمائی ہے، وہیں اس بات کی بھی وضاحت کی ہے کہ قربانی صرف اس جانور کی درست ہے جو مقررہ عمر کو پہنچ چکا ہو۔
عمر کی شرعی تعیین درج ذیل ہے:
بکرا، بکری: کم از کم ایک سال کا ہونا ضروری ہے۔
گائے، بھینس: کم از کم دو سال کی عمر مکمل ہونی چاہیے۔
اونٹ، اونٹنی: ان کی عمر پانچ سال ہونی شرط ہے۔
دنبہ یا بھیڑ: اگرچہ ان کی عمومی شرط بھی ایک سال ہے، تاہم اگر وہ چھ ماہ کے ہو کر اتنے فربہ اور تندرست ہوں کہ دیکھنے میں سال بھر کے معلوم ہوں، تو ان کی قربانی جائز ہے۔
اہم وضاحت: دانتوں کی اہمیت
اگر کسی شخص نے خود جانور کو بچپن سے پالتے دیکھا ہو اور اس کی عمر کا مکمل یقین ہو، تو دانتوں کی بنیاد پر عمر کی جانچ ضروری نہیں۔ شریعت نے عمر کی مدت پوری ہونے کو شرط بنایا ہے، نہ کہ "دانت نکلنے” کو۔
تاہم آج کل کے حالات میں، جب دھوکہ دہی عام ہو چکی ہے اور بیوپاری حضرات کی بات پر مکمل اعتماد مشکل ہو گیا ہے، تو علمائے کرام نے احتیاطاً دانتوں کو عمر جانچنے کی علامت کے طور پر مقرر فرمایا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تجربے سے ثابت ہے۔ مطلوبہ عمر سے پہلے کسی جانور کے دو پکے دانت نہیں نکلتے، البتہ زیادہ عمر والا جانور دانت نکال چکا ہوتا ہے۔ لہٰذا: بہتر اور محفوظ راستہ یہی ہے کہ جانور کی عمر کے معیار کو دانتوں سے بھی جانچا جائے، تاکہ قربانی میں کوئی شرعی نقص باقی نہ رہے۔
یاد رکھیں! قربانی اللہ کی رضا کے لیے ہے، اس میں معمولی کوتاہی بھی ہمیں ثواب سے محروم کر سکتی ہے
صحت اور عیوب سے پاک ہونا
اسلام نے قربانی کے جانور کے لیے کچھ شرعی اصول متعین فرمائے ہیں۔ جو جانور ان شرائط پر پورا نہیں اترتے، ان کی قربانی ناجائز ہے۔ درج ذیل احکام ہر مسلمان کے لیے جاننا ضروری ہیں:
ایسے جانور جن کی قربانی ناجائز ہے
ایسے جانوروں کی قربانی نہیں ہو سکتی:
ایسا پاگل جانور جو چرتا نہ ہو اور حد درجہ کمزور ہو (علامت: اتنا دبلا ہو کہ کھڑا نہ ہو سکے)
اندھا یا ایسا کانا جس کا عیب ظاہر ہو
ایسا بیمار جو بیماری کی شدت سے کھانا نہ کھاتا ہو
ایسا لنگڑا جو چل کر قربان گاہ تک نہ جا سکے
پیدائشی کان نہ ہونے والا یا ایک کان والا جانور
وحشی (جنگلی) جانور جیسے نیل گائے یا جنگلی بکرا
خنثیٰ (یعنی جس میں نر و مادہ دونوں کی علامات ہوں)
جلّالہ (یعنی جو صرف گندگی کھاتا ہو)
جس کے ایک پاؤں کاٹ دیا گیا ہو
جس کے کان، دُم یا چکّی (دم کی ہڈی) کا ایک تہائی سے زیادہ حصہ کٹا ہو
ناک کٹی ہوئی ہو
تمام دانت گر چکے ہوں
تھن کٹے ہوئے یا خشک ہوں
بکری کا ایک تھن خشک ہو تو قربانی ناجائز ہے
گائے یا بھینس کے دو تھن خشک ہوں تو بھی قربانی ناجائز ہے
(بحوالہ: دُرِّمُختار، بہارِ شریعت)
سینگ کا حکم
جس جانور کے پیدائشی طور پر سینگ نہ ہوں، اس کی قربانی جائز ہے
اگر سینگ جڑ سمیت ٹوٹ چکے ہوں تو قربانی ناجائز ہے
اگر سینگ صرف اوپر سے ٹوٹے ہوں اور جڑ سلامت ہو تو قربانی جائز ہے (عالمگیری)
ملکیت کی شرط: ایک شرعی تقاضہ
قربانی محض ایک رسم نہیں، بلکہ ایک عظیم عبادت ہے، جو خالص نیت، سچی اطاعت اور شرعی تقاضوں کی پاسداری کا تقاضا کرتی ہے۔ انہی شرائط میں سے ایک اہم شرط یہ ہے کہ قربانی کا جانور قربانی کرنے والے کی ملکیت میں ہو یا شرعی اجازت سے ذبح کیا جائے۔
شرعی اصول
اسلام کا اصول ہے:
> "لَا تُقْبَلُ قُرْبَانَةٌ إِلَّا مِمَّنْ يَمْلِكُهَا أَوْ يُؤْذَنُ لَهُ فِيهَا” یعنی: قربانی صرف اسی کی قبول ہے جو جانور کا مالک ہو یا جسے اجازت دی گئی ہو۔
وضاحت:
1. ذاتی ملکیت: اگر کوئی شخص خود اپنا جانور خرید کر قربانی کرتا ہے، تو یہ سب سے واضح اور افضل صورت ہے۔
2. شرعی وکالت (اجازت): اگر کوئی دوسرے شخص کے جانور کی قربانی کرنا چاہتا ہے، تو یہ صرف اسی وقت درست ہو گی جب:
اسے واضح طور پر اجازت دی گئی ہو
یا وہ اس شخص کی طرف سے وکیل (نمائندہ) مقرر ہو
کیا قربانی بغیر اجازت جائز ہے؟
ہرگز نہیں۔ اگر کسی نے دوسرے کا جانور بغیر اجازت ذبح کر دیا:
وہ غاصب شمار ہو گا
اس کی قربانی نہ قبول ہو گی
اور مالی و شرعی گناہ کا مرتکب ہو گا
"جو شخص جانور کا مالک نہ ہو، اس کے لیے قربانی کرنا جائز نہیں۔” (الفتاویٰ الہندیہ، جلد 5، ص 295)
"قربانی کرنے والے کا جانور پر مالک ہونا یا شرعی طور پر وکیل یا مجاز ہونا ضروری ہے۔ ورنہ قربانی درست نہ ہوگی۔” (بہارِ شریعت، جلد 3، قربانی کے مسائل)
"مالک کی اجازت کے بغیر قربانی جائز نہیں۔”
قربانی کے اہم مسائل اور ان کا حل
مشترکہ قربانی کے مسائل
🌻 قربانی کے جانوروں میں کتنے افراد شریک ہوسکتے ہیں؟
¤ قربانی کے جانوروں میں کتنے افراد شریک ہوسکتے ہیں؟ قربانی کے بڑے جانور یعنی اونٹ، اونٹنی، گائے، بیل، بھینس، بھینسا میں ایک سے لے کر سات تک افراد شریک ہوسکتے ہیں، چاہے جفت افراد ہوں یا طاق، لیکن سات سے زیادہ افراد کی شرکت جائز نہیں۔ (رد المحتار، بدائع الصنائع، فتاویٰ عالمگیری، جواہر الفقہ، اعلاء السنن) قربانی کے چھوٹے جانور یعنی بکرا، بکری، دنبہ، بھیڑ، مینڈھا میں سے ہر ایک میں صرف ایک آدمی ہی کی قربانی جائز ہے، اس میں ایک سے زیادہ افراد کی شرکت جائز نہیں۔ (رد المحتار، اعلاء السنن)
¤ کیا قربانی کے شرکاء کا طاق ہونا ضروری ہے؟ بعض حضرات یہ سمجھتے ہیں کہ قربانی کے جانور میں صرف طاق یعنی ایک، تین، پانچ یا سات افراد ہی شریک ہوسکتے ہیں، جفت افراد نہیں، حالاں کہ یہ واضح غلطی ہے،کیوں کہ اوپر مذکور مسئلے سے یہ بات بخوبی معلوم ہوجاتی ہے کہ قربانی کے جانور میں جفت یعنی دو، چار یا چھ افراد بھی شریک ہوسکتے ہیں۔
¤کیا بڑے جانور میں سات حصے بنانا ضروری ہے؟ بعض لوگ اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ قربانی کے بڑے جانور میں اگر سات سے کم افراد شریک ہوں تب بھی سات حصے ہی بنانے ضروری ہیں، واضح رہے کہ یہ غلط فہمی ہے، صحیح مسئلہ یہ ہے کہ جتنے افراد شریک ہوں ان کے مطابق حصے بنانا بالکل درست ہے، جیسے دو افراد شریک ہوں تو دو حصے بنادیے جائیں، پانچ شریک ہوں تو پانچ حصے بنادیے جائیں، البتہ اگر سات سے کم شُرکاء جانور کے سات حصے ہی بنانا چاہیں تب بھی جائز ہے، جس کی تفصیل آگے ذکر کی جارہی ہے۔
¤قربانی کے بڑے جانور میں شرکاء کے حصوں سے متعلق ایک اہم مسئلہ: قربانی کے بڑے جانور میں جتنے بھی افراد شریک ہوں اس میں اس بات کا لحاظ رکھا جائے کہ کسی بھی شریک کا حصہ ساتویں حصے سے کم نہ ہو، جیسے کسی بڑے جانور میں سات افراد اس طرح شریک ہوں کہ پانچ افراد کا ایک ایک حصہ ہو، ایک کا ڈیڑھ حصہ ہو اور ایک کا آدھا حصہ ہو، اس صورت میں چونکہ ایک کا حصہ آدھا ہے جو کہ ساتویں حصے سے کم ہے، اس لیے کسی کی بھی قربانی جائز نہیں ہوگی۔ (الدر المختار مع رد المحتار، فتاویٰ عثمانی) سادہ الفاظ میں یوں کہیے کہ بڑے جانور کو سات برابر حصوں میں تقسیم کردیا جائے تو ان میں سے ایک حصے کو ساتواں حصہ کہتے ہیں۔
¤بڑے جانور میں کسی بھی شریک کا حصہ ساتویں حصے سے کم نہ ہونے کی وضاحت: ماقبل میں یہ بات بیان ہوچکی ہے کہ قربانی کے بڑے جانور میں سات سے زیادہ افراد کی شرکت جائز نہیں، اس سے یہ اہم بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ قربانی کے جانور میں جتنے بھی افراد شریک ہوں اس میں اس بات کا لحاظ رکھا جائے کہ کسی بھی شریک کا حصہ ساتویں حصے سے کم نہ ہو، یہی وجہ ہے کہ جس طرح سات سے زیادہ افراد کی شرکت جائز نہیں، اسی طرح یہ بات بھی سمجھنے کی ہے کہ اگر افراد سات یا سات سے کم ہوں لیکن حصوں کی تقسیم اس طرح کی جائے کہ شرکاء میں سے بعض یا سب کا حصہ ساتویں حصے سے کم آرہا ہو تب بھی شرکت اور قربانی جائز نہیں۔ اس بات کو مثالوں سے سمجھنے کی کوشش کیجیے:
1- کسی بڑے جانور میں آٹھ افراد برابر کے شریک ہوں تو ظاہر کہ ہر ایک کا حصہ ساتویں حصے سے کم ہوگیا، تو یہ جائز نہیں۔
2-کسی بڑے جانور میں آٹھ افراد اس طرح شریک ہوں کہ چھ افراد کا تو پورا پورا حصہ ہو جبکہ باقی دو افراد ایک ہی حصے میں شریک ہوں تو ایسی صورت میں چوں کہ ساتویں فرد کا حصہ ساتویں حصے سے کم ہوگیا اس لیے یہ صورت بھی جائز نہیں، گویا کہ قربانی کے بڑے جانور میں آٹھ افراد کی شرکت کی کوئی بھی صورت جائز نہیں۔
3- کسی بڑے جانور میں سات سے کم افراد اس طرح شریک ہوں کہ بعض یا سب کا حصہ ایک سے زیادہ ہو، یعنی ہر ایک کے پاس ایک ایک مکمل حصہ ہو اور باقی حصہ کسر میں ہو، تو یہ بھی جائز ہے کیوں کہ ہر ایک کا حصہ ساتویں حصے سے کم نہیں بلکہ زیادہ ہے، جیسے ایک جانور میں چار افراد اس طرح شریک ہوں کہ دو افراد کا ایک ایک حصہ ہو، جبکہ باقی دو افراد کے ڈھائی ڈھائی حصے ہوں تو یہ بھی جائز ہے کیوں کہ کسی کا بھی حصہ ساتویں حصے سے کم نہیں۔
4- کسی جانور میں سات افراد اس طرح شریک ہوں کہ پانچ افراد کا ایک ایک حصہ ہو، ایک کا ڈیڑھ حصہ ہو اور ایک کا آدھا حصہ ہو، اس صورت میں چونکہ ایک کا حصہ صرف آدھا ہے جو کہ ساتویں حصے سے کم ہے، اس لیے کسی کی بھی قربانی جائز نہیں ہوگی۔
5- ایک جانور میں دو افراد اس طرح شریک ہوں کہ دونوں کے ساڑھے تین ساڑھے تین حصے ہوں تو یہ بھی جائز ہے کیوں کہ کسی کا حصہ ساتویں حصے سے کم نہیں۔
قربانی کے جانور میں عیب پیدا ہو جانا
قربانی کا جانور جب خریدا گیا تو صحیح سالم تھا لیکن بعد میں عیب دار ہوگیا تو اس کی قربانی کا حکم یہ ہے کہ:
اگر وہ شخص مالدار ہے تو اس پر دوسرے جانور کی قربانی لازم ہے اور اگر وہ غریب ہے تو پھر وہی جانور اس کے لیے کافی ہے، دوسرا جانور قربان کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
قربانی کی نیت میں تبدیلی
قربانی کا جانور متعین کرنے کے بعد اسے تبدیل کرنا مناسب نہیں ہے، تاہم اگر صاحب نصاب شخص قربانی کا متعین شدہ جانور تبدیل کرکے دوسرے جانور کی قربانی کرے تو قربانی درست ہوجائے گی ,البتہ اگر جانور تبدیل کرنے کے لیے پہلے جانور بیچ دے تو دوسرا جانور پہلے سے کم قیمت والا نہ ہو ، اور اگر دوسرا جانور اس سے کم قیمت والا ہو تو بقیہ اضافی رقم بھی صدقہ کر دے ۔
خلاصہ اور اہم نکات
1. قربانی کی اصل: قربانی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت اور دینِ اسلام کا شعائر میں سے ہے، جو صرف جانور ذبح کرنا نہیں بلکہ خلوص، نیت اور اللہ کی رضا کا اظہار ہے۔
2. جانور کا انتخاب: قربانی کا جانور خوبصورت، توانا، عیب سے پاک اور شرعی عمر کا ہونا ضروری ہے۔
بکرا/بکری: 1 سال
گائے/بھینس: 2 سال
اونٹ/اونٹنی: 5 سال
دنبہ/بھیڑ: 6 ماہ (اگر فربہ ہو اور سال بھر کا دکھائی دے)
3. عیب دار جانور ناجائز: اندھا، لنگڑا، بیمار، پاگل، دانت جھڑ چکے ہوں، دم/کان/سینگ شدید کٹے ہوں – ایسے جانوروں کی قربانی ناجائز ہے۔
4. ملکیت کی شرط: قربانی صرف اس جانور کی جائز ہے جو قربانی کرنے والے کی ملکیت میں ہو یا اس کے وکیل (نمائندہ) کی اجازت سے ذبح کیا گیا ہو۔
5. قربانی کے بڑے جانور میں شرکت:
گائے، اونٹ وغیرہ میں 1 سے 7 افراد شریک ہو سکتے ہیں۔
ہر شریک کا حصہ کم از کم ایک ساتواں حصہ ہونا ضروری ہے۔
چھوٹے جانور (بکرا، دنبہ) میں صرف ایک شخص شریک ہو سکتا ہے۔
6. بسم اللہ کا حکم: اگر دو افراد چُھری پر ہاتھ رکھ کر ذبح کریں تو دونوں کو بسم اللہ پڑھنا لازم ہے، ورنہ جانور حلال نہ ہوگا۔
7. قربانی میں خرابی بعد میں پیدا ہو تو: اگر جانور خریدتے وقت تندرست تھا، لیکن بعد میں بیمار یا عیب دار ہو گیا، تو:
مالدار ہو تو دوسرا جانور لینا لازم ہے
غریب ہو تو وہی جانور کافی ہے
8. نیت میں تبدیلی: متعین جانور تبدیل کرنا مکروہ ہے، لیکن اگر تبدیل کرے تو دوسرا جانور کم قیمت والا نہ ہو، ورنہ زائد رقم صدقہ کرے۔
9. قربانی کا عمل: بہتر ہے مسلمان خود ذبح کرے، یا کسی کو وکیل بنا کر خود موجود رہے۔
مسائل کی صورت میں مستند علماء کی طرف رجوع کریں !