تعارف و پس منظر:
تاریخِ اسلامی کا وہ دردناک، اہم اور فیصلہ کن واقعہ جو 10 محرم الحرام 61 ہجری (مطابق 10 اکتوبر 680 عیسوی) کو عراق کے شہر کربلا کے میدان میں پیش آیا، واقعہ کربلا کہلاتا ہے۔ اس عظیم واقعے نے نہ صرف اسلامی اقدار کو نئی زندگی بخشی بلکہ حق و باطل کے درمیان ایک ابدی لکیر بھی کھینچ دی۔ یہ حضرت امام حسین بن علی رضی اللہ عنہ، نواسۂ رسول ﷺ، اور ان کے وفادار ساتھیوں کی لازوال قربانیوں پر مبنی ہے، جو دینِ اسلام کی سربلندی، عدل، حریت، اور باطل کے خلاف جہاد کے لیے پیش کی گئیں۔
حقیقی پس منظر اور اسباب:
تاریخ اسلام میں چند واقعات ایسے الم ناک اور عبرت خیز ہیں کہ خود تاریخ ان کے تذکرے پر اشک بار دکھائی دیتی ہے۔ انہی واقعات میں سے ایک واقعہ کربلا ہے، جو ظلم، فریب، اور بے مثال استقامت و قربانی کا ایسا باب ہے جس نے اسلامی ضمیر کو ہمیشہ کے لیے جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔
ابتدائی پس منظر: فرقہ وارانہ فتنوں کی جڑ:
واقعہ کربلا کا پس منظر محض سیاسی اختلاف یا حکومتی تنازعہ نہیں تھا، بلکہ اس کی جڑیں ان فرقہ وارانہ فتنوں میں پیوست تھیں جو خلافتِ راشدہ کے آخری دور میں پیدا ہوئے۔ خاص طور پر عبداللہ بن سبا، جو ایک یہودی النسل شخص تھا، نے اسلام میں فرقہ پرستی کی بنیاد رکھی۔ اس نے یہ نظریہ عام کیا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ تمام صحابہ سے افضل ہیں اور انہیں "رازدارِ نبوت” قرار دیا۔ یہ فتنہ بصرہ، کوفہ، اور دیگر شہروں میں پھیلا اور بالآخر خلافتِ عثمانی کے خلاف بغاوت کی صورت اختیار کر گیا، جس کے نتیجے میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی مظلومانہ شہادت ہوئی۔ صحابہ کرام کی فضیلت اور ان کے باہمی تعلقات کو سمجھنا اس فتنے کو مزید واضح کرتا ہے۔
خلافت کے بعد امن کا دور:
حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بعد جب حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے اپنے حق خلافت سے دستبردار ہوکر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ صلح کی، تو امتِ مسلمہ ایک طویل عرصے بعد امن اور وحدت کی طرف لوٹ آئی۔ اس صلح نے تقریباً دو دہائیوں تک فتنہ و فساد کو دبائے رکھا اور اسلام کی دعوت، جہاد اور حدود کی توسیع کا کام ازسرنو شروع ہوا۔
یزید کی ولی عہدی اور کوفہ کا ردِ عمل:
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنے تجربے اور سیاسی حالات کو دیکھتے ہوئے یزید کو ولی عہد مقرر کیا۔ اگرچہ صحابۂ کرام کی اکثریت نے اس پر خاموشی اختیار کی یا اجتہادی رائے کے تحت حمایت کی، لیکن حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہما نے اسے شورائی اصولوں کے منافی سمجھتے ہوئے اس بیعت سے انکار کر دیا۔
اسی دوران کوفہ کے بعض قبائل اور فتنہ پرور عناصر، جو پہلے بھی حضرت علی اور حضرت حسن رضی اللہ عنہما کے ساتھ بدعہدی کر چکے تھے، نے حضرت حسین کو خطوط بھیج کر کوفہ آنے کی دعوت دی۔ ان کا دعویٰ تھا کہ وہ یزید کی بیعت فسخ کر چکے ہیں اور امام حسین کو اپنا امام تسلیم کرنے کے لیے تیار ہیں۔
مسلم بن عقیل کی بیعت اور شہادت:
حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے اپنے چچازاد بھائی مسلم بن عقیل کو کوفہ بھیجا تاکہ وہاں کے حالات کا جائزہ لیا جا سکے۔ وہاں ہزاروں افراد نے ان کے ہاتھ پر بیعت کی، مگر جلد ہی حالات بدل گئے۔ گورنر ابن زیاد کے دباؤ، دھونس اور سزاؤں کے باعث وہی لوگ منحرف ہو گئے، اور مسلم بن عقیل کو بے دردی سے شہید کر دیا گیا۔
سفرِ کربلا اور تنہا ہو جانا:
جب امام حسین رضی اللہ عنہ کو راستے میں مسلم بن عقیل کی شہادت اور کوفیوں کی بے وفائی کی اطلاع ملی، تو آپ نے واپسی کا ارادہ کیا۔ لیکن آپ کے بعض ساتھیوں اور کوفی وفد نے آپ کو تسلی دی کہ آپ کی آمد سے حالات تبدیل ہو سکتے ہیں۔ نتیجتاً آپ کربلا تک پہنچ گئے جہاں حر بن یزید اور بعد ازاں عمر بن سعد کی زیر قیادت یزیدی لشکر نے آپ کا محاصرہ کر لیا۔
صلح کی کوششیں اور ان کا انجام:
امام حسین رضی اللہ عنہ نے ابتدا میں صلح کی مکمل خواہش ظاہر کی اور تین تجاویز پیش کیں:
- مجھے واپس مدینہ جانے دیا جائے۔
- مجھے کسی اسلامی سرحد پر جانے دیا جائے تاکہ میں جہاد میں مصروف رہوں۔
- مجھے دمشق یزید کے دربار میں جانے دیا جائے تاکہ براہ راست معاملہ طے کیا جا سکے۔
مگر یزیدی افسران، بالخصوص ابن زیاد کے اثر و رسوخ اور کوفی سازشی عناصر کے دباؤ کے باعث صلح کی تمام کوششیں ناکام ہو گئیں۔
یوم عاشور اور شہادتِ امام حسین(رضی اللہ عنہ):
10 محرم الحرام 61 ہجری کو کربلا کے تپتے میدان میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے اہل بیت و اصحاب نے بے سروسامانی، بھوک، پیاس، اور عددی قلت کے باوجود بے مثال استقامت کا مظاہرہ کرتے ہوئے شہادت قبول کی۔ ان کی یہ عظیم قربانی تا قیامت حق و باطل کے درمیان ایک واضح امتیاز بن گئی۔
یزید کا کردار:
اگرچہ تاریخی منابع میں یہ اختلاف پایا جاتا ہے کہ یزید براہ راست امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا ذمہ دار تھا یا نہیں، لیکن بطور خلیفہ وقت وہ اخلاقی اور سیاسی طور پر اس المیے سے بری الذمہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اس کا طرزِ حکومت، دربار کی فضا، اور کوفہ و شام کے گورنروں کا طرز عمل اس کی ذمہ داری کو مزید واضح کرتا ہے۔
امام حسین کا ساتھ دینے والے چند صحابہ کرام اور دیگر معززین
واقعہ کربلا میں امام حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ بہت سے وفادار ساتھیوں نے جام شہادت نوش کیا۔ آپ کے فراہم کردہ مواد سے چند اہم نام یہ ہیں:
- میثم تمار
- مسلم بن کثیر ازدی (یا اسلم بن کثیر)
- انس بن حارث کاہلی
- حبیب بن مظاہر اسدی
- زاہر بن عمرو کندی اسلمی
- سعد بن حارث (مولیٰ امیرالمؤمنینؑ)
- عبد الرحمٰن بن عبداللہ ارحبی
- عون بن جعفر طیار
- محمد اصغر بن جعفر بن ابی طالب
- مسلم بن عوسجہ اسدی
دیگر صحابہ کہاں تھے؟
جب حضرت حسین رضی اللہ عنہ اہل کوفہ کے بلانے پر کوفہ کی طرف نکلے، تو اس وقت کے اکابرین صحابہ کی رائے یزید کے خلاف خروج نہ کرنے کی تھی۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ، حضرت عبداللہ بن جعفر، حضرت ابو سعید خدری اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم اجمعین نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو منع بھی کیا کہ اہل کوفہ کے کہنے پر کوفہ کی طرف نہ جائیں۔
حتیٰ کہ حضرت عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ نے عمرو بن سعید بن العاص (جو کہ یزید کی طرف سے عامل مقرر تھے) کو کہا کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو خط لکھ کر انہیں امان دے دیں اور راضی کر لیں۔ ایسا ہی ہوا اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو عمرو بن سعید کی طرف سے ان کے بھائی اور حضرت عبداللہ بن جعفر کے ہاتھ خط بھیجا گیا، لیکن حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے خواب میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے حاصل ہونے والے پیغام کا ذکر کیا اور فرمایا کہ میں نے جو ارادہ کیا ہے، میں کر گزروں گا۔
حضرت حسین رضی اللہ عنہ اپنے اجتہاد سے یہ سمجھتے تھے کہ یزید کے خلاف خروج کرنا چاہیے، اور دیگر صحابہ اپنے اجتہاد کی وجہ سے یا تو اس وقت خروج کو جائز ہی نہیں سمجھتے تھے یا پھر فتنہ اور فساد کے اندیشہ کی وجہ سے خروج میں امت کا زیادہ نقصان سمجھتے تھے۔ لہذا اس معاملہ میں نہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ پر کسی قسم کا طعن کرنا چاہیے اور نہ دیگر صحابہ پر کسی قسم کا طعن کرنا چاہیے، وہ سب کے سب اپنے اجتہاد کے مطابق فیصلہ کرنے کے مکلف تھے جس میں دین اور امت کا فائدہ ہو اور سب نے ایسا ہی کیا۔ لہذا وہ سب کے سب حق پر تھے۔
واقعہ کربلا کے تاریخ پر گہرے اور دیرپا اثرات
واقعہ کربلا محض ایک المناک سانحہ نہیں بلکہ ایک ایسا ہمہ گیر تاریخی، دینی اور فکری انقلاب تھا جس نے امت مسلمہ کے طرزِ فکر، نظامِ خلافت، روحانیت، علم، ادب، سیاست، اور تہذیب پر دائمی اثرات مرتب کیے۔
1. اسلامی فکر و شعور میں انقلاب:
کربلا نے اسلامی ضمیر کو جھنجھوڑا اور اہل ایمان کو ظلم کے خلاف بیداری عطا کی۔ امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت نے مسلم معاشروں میں یہ شعور پیدا کیا کہ حکمران کی بیعت اندھی تقلید نہیں بلکہ حق و عدل کے تابع ہے۔ یہ شعور رفتہ رفتہ اسلامی سیاسی فکر کی بنیاد بنا:
- امامت اور خلافت کے اصولوں پر نظرثانی شروع ہوئی۔
- ظلم اور جبر کے خلاف شعوری مزاحمت کو مذہبی جواز حاصل ہوا۔
- کربلا نے "امر بالمعروف و نہی عن المنکر” کے تصور کو عملی بنیاد عطا کی۔
2. سیاسی اثرات:
واقعہ کربلا نے واضح کر دیا کہ شورائی نظام ہی خلافت کا حقیقی تصور ہے۔
- وراثتی بادشاہت کے خلاف فکری تحریکوں کی بنیاد پڑی، جیسے عباسی انقلاب (750 عیسوی) اور زیدیوں و فاطمیوں کی قیادت میں احتجاجی تحریکیں۔
- حکومت و رعایا کے تعلقات میں تبدیلی واقع ہوئی۔
- خلیفہ یا حاکم کے احتساب کا تصور پیدا ہوا۔
- عوام کو حکمرانوں کے ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے کا اخلاقی و دینی جواز ملا۔
3. معاشرتی اثرات:
- حق و باطل کی تمیز امام حسینؓ کی استقامت کی بنیاد پر واضح ہو گئی۔
- کربلا نے بے حسی، مصلحت پسندی، اور کوفی مزاج کی مذمت کو راسخ کیا۔
- عوامی سطح پر مظلوموں کے ساتھ ہمدردی اور انصاف کی حمایت ایک عمومی رویہ بن گیا۔
4. فقہی و کلامی اثرات:
- عدل (Justice) اور امامت کے موضوعات پر علم کلام میں وسعت پیدا ہوئی۔
- شیعہ اور سنی مکاتب فکر میں امامت اور قیادت کے اصولوں پر باقاعدہ مباحث جنم لینے لگے:
- اہل تشیع نے امامت کو منصوص من اللہ قرار دیا۔
- اہل سنت نے خلافت کو شورائی و انتخابی مانا، مگر ظلم کے خلاف پرامن مزاحمت کے اصول کو تقویت دی۔
5. ادبی و فنی اثرات:
- شاعری: اردو، عربی، فارسی اور ترکی ادب میں مرثیہ گوئی اور نوحہ نگاری کی ایک مستقل صنف پیدا ہوئی۔ میر انیس، میرزا دبیر، محسن کاکوروی جیسے شعراء نے اردو ادب کو مرثیہ کے ذریعے نئی جہت دی۔ فارسی میں مولانا روم، حافظ، فردوسی جیسے شعراء نے کربلا کے کرداروں کو علامتی طور پر پیش کیا۔
- خطابت: مجالسِ حسینؓ کے ذریعے خطابت کو معراج حاصل ہوئی۔ وعظ، تذکیر اور درس کے نئے اسالیب سامنے آئے۔
6. تصوف و روحانیت میں اثرات:
- صوفیا نے واقعہ کربلا کو باطنی قربانی، ترک دنیا، اور رضائے الٰہی کی علامت کے طور پر اپنایا۔
- امام حسینؓ کو عارفِ کامل اور محبوبِ خدا کی حیثیت سے پیش کیا گیا۔
- تصوف میں باطن کی طہارت اور شہادت کی آرزو کو حسینیت کا مقام عطا کیا گیا۔
7. تاریخی تحریروں اور تاریخ نگاری پر اثرات:
- مورخین نے واقعہ کربلا کو محض تاریخ نہیں بلکہ عبرت و نصیحت کا باب سمجھ کر لکھا۔ طبری، ابن اثیر، بلاذری، یعقوبی جیسے مورخین نے تفصیل سے اس واقعہ کو نقل کیا۔
- بعد کے مورخین نے اس واقعہ کو اسلامی تحریکِ مزاحمت کی اصل بنیاد مانا۔
نتیجہ:
واقعہ کربلا صرف ایک المناک سانحہ نہیں بلکہ ایک ایسا ہمہ گیر تاریخی، دینی، اور فکری انقلاب تھا جس نے امت مسلمہ کے طرزِ فکر، نظامِ خلافت، روحانیت، علم، ادب، سیاست، اور تہذیب پر دائمی اثرات مرتب کیے۔ یہ واقعہ قیامت تک ہر حریت پسند دل کو جھنجھوڑنے کی صلاحیت رکھتا ہے، اور ہر دور کے ظالم حکمران کے سامنے مزاحمت کا عالمگیر استعارہ ہے۔ واقعہ کربلا کو سمجھنے کے لیے ہمیشہ مستند مصادر کی طرف ہی رجوع کیا جائے اور تاریخی اعتبار سے جتنے بھی واقعات ملتے ہیں جو مصادر کتب سے ثابت نہیں، ان سے اجتناب کیا جائے۔ نیز اس طرح کے مسائل کے لیے اہلسنت علماء و مشائخ اور صحیح العقیدہ علماء ہی کی طرف رجوع کرنا بہتر ہے۔