تعارف:یارسول اللہ کہنے پر ایک اعتراض اور اس کا ازالہ
اکثر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ غیر اللہ سے مدد مانگنا یا استغاثہ کرنا محض "بریلوی” عقیدہ ہے، اور یہ کہ اس موضوع پر کتابیں لکھ کر انہی لوگوں نے شرکیہ عقائد کو پھیلایا ہے۔ تاہم، یہ دعویٰ تاریخی حقائق اور سلف صالحین کے عملی نمونوں کے خلاف ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے استغاثہ و مدد طلب کرنے کا عقیدہ بہت پرانا ہے، اور اس پر بہت پہلے بھی کتب تحریر کی گئیں۔
اس پوسٹ میں ہم ایک ایسی مستند کتاب کا ذکر کریں گے جو اس اعتراض کی بنیاد کو ہی ختم کر دیتی ہے، اور اس کے مصنف کے تعارف سے یہ بھی واضح کریں گے کہ یہ عقیدہ کسی ایک فرقے کی "ایجاد” نہیں بلکہ امت مسلمہ کے جلیل القدر علماء اور محدثین کا عقیدہ رہا ہے۔
‘مصباح الظلام‘: ایک قدیم اور مستند شہادت
تقریباً 755 سال پہلے، یعنی 683 ہجری میں وفات پانے والے شیخ الامام، محقق، مقتداء، عارف و فقیہ، محدث شمس الدین ابو عبداللہ محمد بن موسیٰ المزالی نے ایک شہرہ آفاق کتاب لکھی جس کا نام ہے:
"مصباح الظلام فی المستغثین بخیر الانام علیہ الصلوۃ والسلام فی الیقظة والمنام”
ترجمہ: "تمام کائنات سے افضل ہستیﷺ سے بیدار اور خواب میں مدد مانگنے والوں کے بیان میں اندھیرے دور کرنے والا چراغ”
اس کتاب کا اردو ترجمہ عام طور پر "پکارو یا رسول ﷺ” کے نام سے دستیاب ہے۔
‘مصباح الظلام’ کا علمی معیار
اس کتاب میں امام صاحب نے نبی کریم ﷺ سے استغاثہ و مدد طلب کرنے کے جواز کو قرآن کی آیات، احادیث مبارکہ اور صحابہ کرام سے لے کر ان کی زندگی میں جتنے محدثین و بزرگان دین نے رسول ﷺ سے استغاثہ کیا، ان تمام واقعات کو سند کے ساتھ نقل کیا ہے۔ امام صاحب نے تقریباً 280 سے زائد روایات نقل کر کے رسول اللہ ﷺ سے استغاثہ کے جواز کو ثابت کیا ہے۔
اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ یہ عقیدہ آج کل کی "ایجاد” نہیں بلکہ عین صحابہ، تابعین اور محدثین کرام کا عقیدہ رہا ہے۔ فتویٰ جڑنے والوں سے گزارش ہے کہ پہلے ان محدثین کے بارے میں بتائیں کہ کیا انہوں نے یہ کتابیں لکھ کر شرک پھیلایا؟ اور اگر آپ کا جواب ہاں میں ہے، یعنی آپ کے مطابق سلف صالحین بھی ان شرکیہ عقائد کو فروغ دیتے تھے، تو یہ ایک انتہائی سنگین دعویٰ ہو گا جس کے لیے انہیں ٹھوس دلیل پیش کرنا ہوگی۔
مصنف و محدث کا تعارف: امام شمس الدین محمد بن موسیٰ المزالی
امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ آپ کا تعارف یوں بیان کرتے ہیں:
محمد بن موسیٰ بن النعمان . الشیخ القدوة الزاهد، أبو عبد الله، محمد بن موسى بن النعمان، المزالي المالكي، المغربي التلمساني الفاسي. ولد سنة سبع وستمئة. ولد سنة ست أو سبع وستمائة بتلمسان. وقدم الإسكندرية، فسمع بها من: محمد بن عماد الحراني، وأبا القاسم عبد الرحمن الصفراوي، وأبا الفضل الهمداني. وبمصر من: عبد الرحيم بن الطفيل، وأبي الحسن بن المقير، وأبي الحسن بن الصابوني. وكان فقیها مالكیا، زاہدا عابدا، عارفا، إلا أنه كان متغالیا فی أشعریته. توفی بمصر فی تاسع رمضان، وشیعه الخلائق. وکان یوما مشهودا.
ترجمہ:
محمد بن موسیٰ بن النعمان، معروف شیخ القدوة الزاہد، ابو عبد اللہ المزالی، جنہیں التلمسانی یا الفاسی بھی کہا جاتا تھا، مراکش کے علماء میں شامل تھے۔
وہ 606 یا 607 ہجری میں تلمسان میں پیدا ہوئے۔ بعد میں اسکندریہ گئے، جہاں انہوں نے محمد بن عماد الحرانی، ابو القاسم عبد الرحمن الصفراوی، اور ابو الفضل الہمذانی سے علم حاصل کیا۔ پھر مصر میں علم حاصل کیا اور عبد الرحیم بن الطفیل، ابو الحسن بن المقیر، اور ابو الحسن بن الصابونی سے درس لیا۔
وہ فقیہ مالکی، زاہد، عبادت گزار، اور عارف تھے، مگر اشعری عقیدے میں حد سے زیادہ شدت رکھتے تھے۔ وہ نو رمضان کو مصر میں وفات پا گئے، اور ان کے جنازے میں بڑی تعداد میں لوگ شریک ہوئے، یہ ایک یادگار دن تھا۔
- 📕 سیر الاعلام النبلاء 274/29
- 📕 تاریخ الاسلام 170/51
ان کے مالکی ہونے سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ یہ عقیدہ صرف بریلویوں یا حنفیوں کا نہیں بلکہ صحابہ، تابعین، اور چاروں فقہ کے ائمہ اور ان کے مقلدین کا بھی رہا ہے۔
از قلم: عابد علی قادری ✍