قربانی کرنے کا طریقہ اور کی دعا – فضائل و مسائل

 قربانی – ایک عظیم عبادت اور سنتِ ابراہیمی

قربانی محض ایک رسم نہیں، بلکہ یہ ایک عظیم عبادت اور سنتِ ابراہیمی ہے جو اللہ رب العزت کی رضا اور تقویٰ کے حصول کا ذریعہ ہے۔ قرآنِ مجید اور احادیثِ نبوی ﷺ میں قربانی کا طریقہ، اہمیت، فضیلت اور طریقہ کار کو واضح طور پر بیان کیا گیا ہے۔

قربانی کے جانور کے انتخاب کی مکمل شرعی شرائط اور اس سے متعلق مسائل کے بارے میں مزید تفصیلات کے لیے، ہماری قربانی کے جانور کی شرائط اور اہم مسائل ملاحظہ کریں۔

قربانی اور قرآنی آیات

قرآنِ مجید کی آیات قربانی کی اہمیت اور اس کی بنیادی روح کو یوں واضح کرتی ہیں:

"بے شک میری نماز اور میری قربانی، اور میری زندگی اور میری موت سب اللہ رب العالمین کے لیے ہے۔”(سورۃ الانعام: 162)

"نہ ان کا گوشت اللہ کو پہنچتا ہے، نہ خون، بلکہ تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔”(سورۃ الحج: 37)
"اپنے رب کے لیے نماز پڑھو اور قربانی کرو۔”(سورۃ الکوثر: 2)

ان آیات سے ثابت ہوتا ہے کہ قربانی محض ایک معاشرتی یا ثقافتی عمل نہیں بلکہ یہ ایک خالص عبادت ہے جس میں اللہ کا ذکر، تقویٰ، اخلاص اور شعائرِ اسلام کی تعظیم شامل ہے۔ یہ اللہ کی بندگی کا ایک ایسا اظہار ہے جہاں جان و مال کی قربانی کے ذریعے انسان اپنے پروردگار سے اپنی گہری محبت اور اطاعت کا عملی ثبوت پیش کرتا ہے۔

قربانی اور حدیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم

قرآن کے بعد سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی قربانی کی مشروعیت اور اس کی عمومی حیثیت کا ثبوت ملتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں دس سال تک سال قربانی کی، حالانکہ حج صرف ایک بار کیا۔ یہ خود اس بات کا ثبوت ہے کہ قربانی صرف حاجیوں کے ساتھ خاص نہیں۔

1. حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ
 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

آج کے دن، سب سے پہلا کام یہ ہے کہ ہم نماز پڑھتے ہیں، پھر قربانی کرتے ہیں۔ جس نے اس پر عمل کیا اس نے ہمارے طریقے کو پالیا، اور جس نے نماز سے پہلے جانور ذبح کر لیا تو وہ محض گوشت ہے، قربانی نہیں۔(صحیح بخاری: 5545، مسلم: 1961)

2. حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
قربانی کے دن میں نے دو مینڈھے ذبح کیے، جو سفید اور سینگوں والے تھے، میں نے ان کو اپنے ہاتھ سے ذبح کیا اور ‘بسم اللہ اللہ اکبر’ پڑھا۔ 
(بخاری: 5558)

3. حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو نماز سے پہلے قربانی کرے، وہ دوبارہ کرے۔(صحیح بخاری: 5546)

یہ تمام احادیث اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ قربانی صرف حج یا حاجیوں سے مخصوص نہیں بلکہ عمومی عبادت ہے، جو ہر صاحب استطاعت مسلمان پر سنتِ موکدہ کے درجے میں مشروع ہے۔

قربانی کرنے کا طریقہ (مراحل وار):

نیت کرنا 

قربانی کا جانور ذبح کرنے سے پہلے یہ دعا پڑھی جائے

اِنِّیْ وَجَّهْتُ وَجْهِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ حَنِیْفًا وَّ مَاۤ اَنَا مِنَ الْمُشْرِكِیْنَۚ(۷۹) اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُكِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَۙ(۱۶۲)
لَاشَرِیْکَ لَہٗ وَبِذٰ لِکَ اُمِرْتُ وَاَنَامِنَ الْمُسْلِمِیْنَ

اور جانورکی گردن کے قریب پہلو پر اپنا سیدھا پاؤں رکھ کر اَللّٰھُمَّ لَکَ وَمِنْکَ بِسْمِ اللّٰہِ اَللّٰہُ اَکْبَر۔ پڑھ کر تیز چُھری سے جلد ذَبْح کردیجئے ۔ قربانی اپنی طرف سے ہو توذَبح کے بعد یہ دعا پڑھئے: اَللّٰھُمَّ تَقَبَّلْ مِنِّیْ کَمَا تَقَبَّلْتَ مِنْ خَلِیْلِکَ اِبْرَاھِیْمَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُوَ السَّلَامُ وَحَبِیْبِکَ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّم

اگردوسرے کی طرف سے قربانی کریں تو مِنِّی کے بجائے مِنْ کہہ کر اُس کا نام لیجئے ۔( بوقتِ ذَبح پیٹ پر گھٹنا یا پاؤں نہ رکھئے کہ اس طرح بعض اوقات خون کے علاوہ غذا بھی نکلنے لگتی ہے

جانور کو قبلہ رخ لٹانا:

قربانی یا ذبح کے وقت جانور کو قبلہ رخ لٹانا سنتِ مؤکدہ ہے، جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک سنت سے ثابت ہے۔ اس کے برخلاف کسی اور سمت رخ کر کے ذبح کرنا مکروہ ہے، کیونکہ یہ سنت کی خلاف ورزی ہے۔ البتہ اگر جانور کو ذبح سے پہلے درست طور پر قبلہ رخ لٹا دیا گیا ہو، اور ذبح کے دوران وہ اپنی حرکت سے کسی اور سمت متوجہ ہو جائے، تو اس میں کوئی کراہت نہیں۔ محض معمولی تکلیف یا دشواری کے باعث قبلہ رخ کرنے کو ترک کر دینا شرعاً درست نہیں، بلکہ شریعت ہمیں یہی تعلیم دیتی ہے کہ حتیٰ الامکان سنت کی پیروی کی جائے، چاہے معمولی مشقت ہی کیوں نہ برداشت کرنی پڑے۔

ذبح کرنے کا طریقہ:

ذبح کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ جانور کو قبلہ رو لٹانے کے بعد ’’بسم اللہ، و اللہ اکبر‘‘  کہتے ہوئے تیز دھار چھرے سے جانور کے حلق اور لبہ کے درمیان ذبح کیا جائے، اور گردن کو پورا کاٹ کر الگ نہ کیا جائے، نہ ہی حرام مغز تک کاٹا جائے، بلکہ ’’حلقوم‘‘  اور ’’مری‘‘  یعنی سانس کی نالی اور اس کے اطراف  کی خون کی رگیں جنہیں ’’اَوداج‘‘  کہا جاتا ہے کاٹ دی جائیں، اس طرح جانور کو شدید تکلیف بھی نہیں ہوتی اور سارا نجس خون بھی نکل جاتا ہے، اس طریقہ کے علاوہ باقی تمام طریقوں میں نہ ہی پورا خون نکلتا ہے اور جانور کو بلا ضرورت شدید تکلیف بھی ہوتی ہے۔
جانور کو قبلہ رخ لٹاتے ہوئے جانور کی بائیں کروٹ پر لٹانا پسندیدہ ہے، تاکہ دائیں ہاتھ سے چھری چلانے میں سہولت رہے۔

قربانی کی دعا:

مسنون دعا
عن أنس، قال: ضحى النبي صلى الله عليه وسلم بكبشين أملحين أقرنين، ذبحهما بيده، وسمى وكبر، ووضع رجله على صفاحهما”.( صحيح مسلم:3/ 1556)
ترجمہ: حضرت انس فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺنے دو چتکبرے سینگوں والے مینڈھوں کی قربانی کی، آپ ﷺ نے ان دونوں کو اپنے ہاتھ سے ذبح کیا ،اور ذبح کرتے وقت ’’بسم اللہ ، اللہ اکبر‘‘  پڑھا ،اور ان کے پہلو پر اپنا قدم مبارک رکھا ۔
واضح ہو کہ جانور ذبح کرتے وقت اگر قصداً یعنی جان بوجھ کر بسم اللہ نہ پڑھی جائے تو وہ جانور حلال نہیں ہوتا،لیکن اگر بسم اللہ پڑھنا یاد ہی نہ رہے اور جانور ذبح کر لیا جائے تو وہ جانور حلال ہے،لہذا صورت مسؤلہ میں اگر جانور ذبح کرتے وقت بسم اللہ بھولے سے رہ گئی ہو تو یہ قربانی درست ہو چکی ہے،لہذا سائل کو اب بلاوجہ شکوک و شبہات میں نہیں پڑنا چاہیے۔
جلد بازی سے گریز:
جانور کے مکمل طور پر ساکن ہونے کا انتظار کرنا۔
حضرتِ سیِّدُنا شَدّاد بن اَوس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت ہے کہ سیِّدُ الْمُرسَلین، خاتَمُ النَّبِیِّین ، جنابِ رحمۃٌ لِّلْعٰلمِین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا : اللہ تَعَالٰی نے ہر چیز کے ساتھ نیکی کرنے کا حکم دیا ہے،لہٰذا جب تم کسی کو قتل کرو تو احسن(یعنی بہت اچّھے ) طریقے سے قتل کرو اور جب تم ذَبح کرو تو اَحسن(یعنی خوب عمدہ) طریقے سے ذَبح کرو اورتم اپنی چُھری کو اچّھی طرح تیز کرلیا کرواورذَبیحہ کو آرام دیا کرو۔ (صَحیح مُسلِم ص۱۰۸۰ حدیث۱۹۵۵)بوقتِ ذَبْح رضائے الٰہی کی نیّت سے جانور پر رَحْم کھانا کارِثواب ہے جیساکہ ایک صَحابی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے بارگاہِ رسالت میں عرض کی : یارَسُوْلَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ! مجھے بکری ذَبْح کرنے پر رَحْم آتا ہے ۔ فرمایا:’’ اگر اس پر رَحْم کرو گے اللہ عَزَّ وَجَلَّ بھی تم پر رَحْم فرمائے گا۔ مُسندِ اِمام احمد بن حنبل ج۵ ص ۳۰۴حدیث

ذبح کے مزید تفصیلی شرعی احکام جاننے کے لیے آپ دعوت اسلامی کے پورٹل پر موجود قربانی کے طریقے کے مضمون کا مطالعہ کر سکتے ہیں۔

قربانی کے فضائل و برکات:

پُلصراط کی سُواری:
سرکارِنامدار، مدینے کے تاجدار،بِاِذنِ پَرْوَرْدَگار دوعالَم کے مالِک ومُختار، شَہَنْشاہِ اَبرار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ خوشبو دار ہے:
انسان بَقَرہ عید کے دن کوئی ایسی نیکی نہیں کرتا جو اللہ عَزَّ وَجَلَّ کو خون بہانے سے زیادہ پیاری ہو، یہ قُربانی قِیامت میں اپنے سینگوں بالوں اور کُھروں کے ساتھ آ ئے گی اورقربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ کے ہاں قَبول ہوجاتا ہے۔ لہٰذا خوش دِلی سے قُربانی کرو۔ (تِرمِذی ج۳ص۱۶۲حدیث ۱۴۹۸)
حضرتِ علّامہ شیخ عبدُالحقّ مُحَدِّث دِہلوی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی فرماتے ہیں:
قربانی، اپنے کرنے والے کے نیکیوں کے پلّے میں رکھی جائے گی جس سے نیکیوں کا پلڑا بھاری ہو گا۔(اشعۃُ اللّمعاتج۱ص۶۵۴)
حضرتِ سیِّدُناعلّامہ علی قاری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الحَنّان فرماتے ہیں :پھر اس کے لئے سُواری بنے گی جس کے ذَرِیعے یہ شخص بآسانی پُلصراط سے گزرے گا اور اُس(جانور) کا ہرعُضو مالِک( یعنی قُربانی پیش کرنے والے) کے ہر عُضْو (کیلئے جہنَّم سے آزادی)کافِدیہ بنے گا ۔( مِرْقاۃُ الْمَفاتِیح ج۳ص۵۷۴تحتَ الحدیث ۱۴۷۰،مراٰۃ ج۲ ص ۳۷۵)

سنت ابراہیمی کی پیروی کی فضیلت۔
سنت ابراہیمی یعنی حلال جانورکی قربانی دین اسلام کے شعائر میں سے ہے، یہ ایک ایسا فریضہ ہے جو بارگاہِ رب العزت میں انتہائی مقبول ہے کیونکہ قربانی کے ذریعے اللہ تعالیٰ کے حضور بندہ اپنی جان و مال کا نذرانہ پیش کر کے در حقیقت اپنے جذبہ عبودیت کا اظہار کرتا ہے۔ نماز اور روزہ انسانی ہمت اور طاقت کی قربانی ہے، زکوٰۃ انسان کے مال وزر کی قربانی ہے، حج بیت اللہ انسان کی ہمت، مال و زر کی قربانی ہے ،قربانی کی اصل روح یہ ہے کہ مسلمان اللہ تعالیٰ کی محبت میں اپنی تمام نفسانی خواہشات کو قربان کر دے ،جانور ذبح کرکے قربانی دینے میں یہ حکمت پوشیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی محبت میں تمام خواہشات نفسانیہ کو ایک ایک کر کے ذبح کر دیا جائے، اللہ تعالی نے ہر امت کیلئے قربانی مقرر فرمائی لیکن اُس کا خاص طریقہ مقرر فرمایا ، ہر قربانی پر اللہ کا نام لینا ضروری قرار فرما دیا قران مجید میں ارشاد ہوتا ہے کہ’’ تم اپنے رب کیلئے نماز اور قربانی کرو ‘‘ایک اور آیت میں ارشاد فرمایا کہ’’ اللہ تعالی کو ہر گز اُن کے گوشت پہنچتے ہیں اور نہ خون، ہاں تمھاری پرہیز گاری اس کی بارگاہ میں پہنچتی ہے‘‘ یعنی تقویٰ اور پرہیز گاری اللہ کے نزدیک پسند یدہ ترین ہے، اگر انسان نیت صحیح رکھ کر کسی جانور کو قربان کرتا ہے تو وہ اللہ کے نزدیک پسندیدہ اور قبولیت کا شرف حاصل کرتا ہے، قربانی کا تصور ازل سے ہے اور ابد تک رہے گا، قربانی دین اسلام میں انتہائی اہمیت کے فرائض میں سے ہے، درحقیقت بندہ اپنی جان ومال کی قربانی دے کر اپنی بندگی کا اظہار اللہ تعالی سے کرتا ہے، اللہ تعالی کو اپنے بندے کی یہ ادا اس لیے بھی پسند ہے کیونکہ اس عمل میں بندے کو صرف اللہ کی خوشنودی اور رضا کے لیے اپنا تن من دھن قربان کرنا ہوتا ہے

حضرت ابراہیم علیہ السلام کا واقعہ

عجیب منظر تھا جب باپ نے اپنے نو عمر فرزند سے پوچھا اے میرے بیٹے میں نے خواب میں دیکھا کہ میں تجھے ذبح کر رہاہوں ، بتا تیری کیا مرضی ہے،حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے سے یہ رائے اس لیے نہیں پوچھی کہ اگر بیٹے کی رائے ہو گی تو ایسا کروں گا ورنہ میں اپنے بیٹے کو ذبح نہیں کروں گا ،نہیں ایسا ہر گز نہیں بلکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے رائے اس لیے پوچھی تھی کہ میری نبوت کا وارث اس آزمائش میں پورا اترتا ہے یا نہیں اور یہ بھی معلوم ہوجائے کہ اللہ کے حکم کے بارے میں بیٹے کا تصور کیا ہے، حضرت اسماعیل علیہ السلام کی فرمانبرداری دیکھئے وہ بیٹا کوئی عام بیٹا نہیں تھا وہ خلیل اللہ کا فرزند ارجمند تھا اگر باپ خلیل اللہ کے مرتبہ پر فائز تو بیٹے کے سر پر بھی ذبیح اللہ کا تاج سجنے والا تھا کیونکہ آپ علیہ السلام ہی کی صلب اطہر سے آقائے دو جہاں تاجدارانبیاحضرت محمد مصطفی ٰﷺ اپنے نورمبین سے اس جہان کو دائمی روشنی سے منور کرنے والے تھے ،اس لیے وارث نبوت نے بھی اطاعت کی حد کر دی، آپ علیہ السلام نے اپنے باپ کے آگے سر کو جھکا دیا اور یہ بھی نہیں پوچھا کہ ابا جان مجھ سے کیا جرم سر زد ہوا ہے ،میری خطا کیا ہے جو آپ مجھے موت کے حوالے کرنے جا رہے ہیں بلکہ قربان جاؤں اس بیٹے پر جس نے نہایت عاجزی وانکساری سے اپنے باپ کے آگے گردن جھکاتے ہوئے جوکلمات اپنی زبان سے ارشاد فرمائے وہ قیامت تک نسل انسانی کے لیے مشعل راہ بن گئے فرماں بردار بیٹے نے خدا کے آگے سر تسلیم خم کردیا اور کہنے لگا کہ اگر خدا کی یہی مرضی ہے تو انشاء اللہ آپ مجھے صابر اور فرماں بردار پائیں گے ۔مفسرین کا کہنا ہے کہ جب حضرت ابراہیمؑ نے بیٹے کے گلے پر چھری چلا دی اور اپنی زندگی کی سب سے بڑی آزمائش میں بھی سرخرو ہوگئے لیکن چھری چلانے سے کچھ بھی نہ کٹا تو اس وقت خالق کائنات کی طرف سے آواز آئی اے ابراہیمؑ یقینا تو نے اپنے خواب کو سچا کر دکھایا یعنی ہم جو جو آزمائش کرنا چاہتے تھے وہ مکمل ہو چکی، حضرت ابراہیمؑ اللہ تعالی کی ہر آزمائش میں ثابت قدم اور کامیاب نکلے۔ اب لڑکے کو چھوڑ اور تیرے پاس جو یہ مینڈھا کھڑا ہے اس کو اپنے محبوب بیٹے کے بدلے میں ذبح کر، ہم نیکو کاروں کو اسی طرح اپنی رحمتوں اور نوازشوں سے نوازتے ہیں لہذا حضرت ابراہیم نے حکم خداوندی کی تعمیل کی اور اس مینڈھے کو ذبح کیا، رب ذوالجلال کو حضرت اسماعیل کی فرماں برداری اور حضرت ابراہیم کی یہ عظیم قربانی ادا اور عبادت اتنی پسند آئی کہ بطور یادگار کے ہمیشہ کیلئے ملت ابراہیمؑ کا شعار قرار پائی اور ذی الحجہ کی دس تاریخ کو تمام دنیائے اسلام میں یہ قربانی اور شعار اسی طرح منایا جاتا ہے۔

اس مہینہ کے شروع کے دس دن اور راتیں خصوصی فضیلت کی حامل ہیں ،ان کی عظمت و فضیلت کے لیے یہی بات کافی ہے کہ خود اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں ”و لیال عشر“فرماکر انہیں دس راتوں کی قسم کھائی ہے ۔ رسول کریم ﷺکا ارشاد ہے کہ :”کوئی دن ایسا نہیں ہے جس میں نیک عمل اللہ تعالی کے نزدیک ان دس دنوں کے عمل سے زیادہ محبوب اور پسندیدہ ہو“۔لہذا ان دس دنوں اور راتوں کو غنیمت سمجھتے ہوئے ان میں ذکر و اذکار ، دعاؤں اور عبادات کا خصوصی اہتمام کرنا چاہیے۔
حضر ت زید بن ارقم رضی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا ، یا رسول اللہﷺ یہ قربانی کیا ہے ، آپ ﷺ نے فرمایا ، یہ تمہارے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے ، انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ اس میں ہمارا کیا فائدہ ہے ، آپ ﷺ نے فرمایا (تمہارا فائدہ یہ ہے کہ تمہیں قربانی کے جانور کے ) ہر بال کے بدلے میں ایک نیکی ملے گی۔ انہوں نے پھر عرض کیا ، یا رسول اللہﷺ اون کا کیا حکم ہے، آپﷺ نے فرمایا ، اون کے ہر بال کے عوض میں بھی ایک نیکی ملے گا۔

قربانی کرنے کے طریقے کے متعلق اہم مسائل:

کیا خواتین خود قربانی کر سکتی ہیں؟

قرآن مجید میں حرام جانوروں کی تفصیل بیان کرتے ہوئے استثنا کیا گیا ہے :… اِلَّا مَا ذَكَّيۡتُمۡ (المائدۃ:3) سوائے اس کے جسے تم نے زندہ پاکر ذبح کر لیا ہو _ یعنی جن جانوروں کا گوشت کھانا حلال ہے انہیں صحیح طریقے سے ذبح کرکے ان کا گوشت استعمال کیا جاسکتا ہے _ اس آیت کا خطاب اہلِ ایمان سے ہے ، جن میں مرد اور خواتین سب شامل ہیں _

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے میں بعض ایسے واقعات پیش آئے جن میں کسی عورت نے جانور ذبح کیا ، آپ نے اس کا گوشت کھانے کی اجازت مرحمت فرمائی _ ایک لڑکی صحرا میں بکریوں کا ریوڑ چرا رہی تھی _ ایک بکری گر کر بہت زیادہ زخمی ہوگئی _ اس نے فوراً ایک دھار دار پتھر سے اسے ذبح کر دیا _ نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے اس کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ نے اس ذبیحہ کا گوشت کھانے کی اجازت دے دی _(بخاری :5504)
ایک دوسری روایت میں تفصیل ہے کہ یہ لڑکی حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کی لونڈی تھی _(بخاری :5505)

امام بخاری (م256 ھ) نے اس حدیث پر یہ عنوان (ترجمۃ الباب) لگایا ہے : "باب ذبیحۃ المراۃ و الامۃ” (اس چیز کا بیان کہ عورت خواہ آزاد ہو یا لونڈی ، وہ جانور ذبح کرسکتی ہے _) صحیح بخاری کے شارح حافظ ابن حجر عسقلانی (م852ھ) نے لکھا ہے :” اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ عورت کا جانور ذبح کرنا جائز ہے ، چاہے وہ آزاد ہو یا لونڈی ، چھوٹی ہو یا بڑی، پاک ہو یا ناپاک _”

اگر قربانی کا جانور بھاگ جائے تو کیا حکم ہے؟

صورتِ مسئولہ میں  اگر صاحب نصاب آدمی نے قربانی کے لئے جانور خریدا اور جانور قربانی سے پہلے (مرگیا یا چوری ہوگیا یا  بھاگ کر) گم ہوگیا  تو اس صورت میں اس شخص پر دوسری قربانی کرناواجب ہے۔اور اگر جانور خریدنے والا شخص غریب ہو تو اِس صورت میں اُس پر دوسری قربانی واجب نہیں ہے


قربانی کی اجرت میں گوشت دینا جائز ہے؟

قصائی کے لیے اسی کے ذبح کردہ جانور کا گوشت اجرت میں  طے کرنا جائز نہیں، جائز صورت یہ ہوسکتی ہے کہ آپ اپنی  اجرت طے کرلیں، مثلاً ایک جانور ذبح کرنے پر پانچ کلو گوشت   بطورِ اجرت طے کرلیا جائے،   لیکن یہ شرط نہ لگائی جائے کہ  اسی ذبح کردہ جانور سے  مذکورہ اجرت دی جائے گی، اگرچہ بعد میں اسی گوشت سے  طے شدہ اجرت دے دی جائے۔

قربانی کے جانور کو تکلیف دینا کیسا ہے؟

ارشادفرمایا:اللہ پاک نےہرچیزکےساتھ نیکی کرنےکاحکم دیاہے،لہٰذاجب تم(قربانی کےجانور) ذَبح کرو توخوب عمدہ طریقےسےذَبح کرو اورتم اپنی چُھری کو اچّھی طرح تیز کرلیاکرواورذَبیحہ کو آرام دیا کرو۔(مُسلِم،  کتاب الصید والذبائح ،باب الامر باحسان  الذبح والقتل۔۔الخ ،۸۲۳،حدیث:۵۰۵۵)
ایک مرتبہ ایک صَحابی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نےبارگاہِ رسالت میں عرض کی:یارَسُوْلَاللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ!مجھےبکری ذَبح کرنے پررَحم آتا ہے۔فرمایا:اگر اس پر رَحم کرو گے اللہ پاک بھی تم پر رَحْم فرمائے گا

خلاصہ اور اہم نصیحتیں:

ماہِ ذی الحجہ کی دسویں تاریخ ایثارو قربانی، اطاعت و فرماں برداری اور جاں نثاری سے عبارت ہے۔ یہ وہ عظیم الشان دن ہےجب خلیل اللہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ضعیف العمری  میں اپنے نوعمر بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو اللہ تبارک وتعالی کی رضا اور خوشنودی کی خاطر قربان کردینے کے لیے قدم اٹھایا۔بیٹا بھی فرماں برداری اور جاں نثاری کا پیکر نکلا۔رضائے الٰہی کے سامنے سرِ تسلیم خم کرتے ہوئے خود کو قربان کرنے کے لیے پیش کردیا۔یہ وہ نظارہ تھا جس کو دیکھ کر چشم فلک بھی حیران رہ گیا۔ اللہ تعالیٰ کو باپ بیٹے کی یہ ’ تسلیم ورضا‘ اس قدر پسند آئی کہ ان کے اس عمل کو ’’ذبح عظیم‘‘ سے تعبیر کیا اور حضرت اسماعیل کو سلامتی کا پروانہ عطا کرتے ہوئے ان کی جگہ قربانی کے لیے دنبہ بھیج دیااور تمام امتوں کے لیے قربانی کرنا فرض قرار دیا۔چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتاہے ’’اور ہم نے ایک بڑا ذبیحہ اس کے فدیہ میں دے دیااور ہم نے ان کا ذکر خیر پچھلوں میں باقی رکھا۔‘‘

دوسری جگہ مزید واضح انداز میں فرمایا ’’اور ہر امت کے لئے ہم نے قربانی کے طریقے مقرر فرمائے ہیں تاکہ وہ ان چوپائے جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ نے انہیں دے رکھے ہیں۔‘‘(الحج ۔۳۴)

عید الاضحی کے روز ہر مسلمان اس عظیم الشان قربانی کی یاد تازہ کرتا ہے جوخواب کے اشارہ ٔ غیبی کو اللہ کا حکم گردانتے ہوئےحضرت ابرہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام نے پیش کی تھی۔خلوص اور پاکیزہ نیت سے اللہ کی راہ میں دی گئی قربانی انسان کے دل میں غمگساری، ہمدردی، مخلوق پروری اور دکھی انسانیت کی خدمت کا جذبہ پیدا کرتی ہے۔قربانی کی اصل روح انسان میں تقویٰ کو پروان چڑھانا ہے نہ کہ محض جانور قربان کر کے گوشت اور خون اس کی نذر کرنا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کو بھی ذبیح جانور کا گوشت اور خون نہیں بلکہ دلوں کا تقویٰ اور اخلاص پہنچتا ہے۔ جیسا کہ قرآن حکیم میں ارشاد ہوتا ہے:

اللہ تعالیٰ کو قربانیوں کے گوشت نہیں پہنچتے اورنہ ہی اس کے خون بلکہ اسے تو تمہارے دل کی پرہیزگاری پہنچتی ہے۔(الحج۔۳۷)
قربانی کرنے کا حکم اس لیے نہیں ہے کہ خدا کو ان قربانیوں سے کوئی نفع پہنچتاہے۔ خدا کو ان قربانیوں کا گوشت یا خون کچھ بھی نہیں پہنچتابلکہ تمہاری پیش کی ہوئی یہ چیز تم ہی کو لوٹا دی جاتی ہے۔ تم خود اس کو کھاؤ اور بھوکوں اور محتاجوں کو کھلاؤ۔خدا کوقربانیوں کے خون سے مسرت وشادمانی نہیں ملتی، بلکہ وہ اس تقویٰ اور خلوص اور اس اطاعت اور جذبہ تسلیم ورضا سے خوش ہوتا ہے جو ان قربانیوں سے ان کے پیش کرنے والوں کے اندر پیدا ہوتا ہے۔ قربانی کا بظاہر مقصد توجانور ذبح کرنا ہے مگر اس کی اصل روح تقویٰ ،للٰہیت اور اخلاص ہے۔ لیکن بڑے افسوس کی بات ہے کہ آج کے  دورمیں قربانی سنت ابراہیمی کی بجائے ریا ونمو د کی قربانی بن چکی ہے۔ لوگ اخلاص و تقویٰ کی بجائے دکھاوے اورنمائش کے لیے قربانی کرنے لگے ہیں۔ اپنی دولت کا رعب جمانے ، ایک دوسرے سے آگے بڑھنے اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی  ایک ہوڑ سی لگی ہوئی ہے۔ لوگ اخلاص وتقوی سے اپنا دامن خالی کر کے ریاکاری کو اپنا شعار بنا چکے ہیں۔سینہ چوڑا کرکے بڑے فخرسے بتاتے ہیں کہ میںنے اتنے مہنگے جانور کی قربانی کی۔دوسرے کا جانور کمزور ہونے پر ان کی تذلیل کرتے اور ان کو نیچا دکھاتے ہیں۔ وہ یہ بھول چکے ہیں کہ قربانی کی قبولیت کا انحصار مہنگے یا اعلیٰ نسل کے جانوروں کے ذبح اور ریاکاری پر نہیں بلکہ تقویٰ اورخلوص و للٰہیت پر ہوتا ہے اور جہاں اخلاص نہ ہو وہاں قبولیت بھی نہیں ہوتی۔قربانی  کااصل مقصد جانور ذبح کرنا، خون، بہانا،گوشت کھانااور نمائش کرنا ہرگز نہیں بلکہ صرف اور صرف  رضائے الٰہی کا حصول اور پروردگان کے واضح حکم کی تعمیل ہے اور بس۔ اگر اسی نیک جذبے اور خلوص نیت سے قربانی کی جائے تو یقینا وہ بارگاہ الٰہی میں شرفِ قبولیت  کو پہنچتی ہے اور اگراس میں ذرہ برابر بھی ریاکاری اور نمود ونمائش کا عنصر شامل ہوجائے یالوگوں پراپنی دولت کا رعب جمانے کے لیے قربانی کی جائے تو ایسی قربانی ثواب سے محروم کر دیتی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کو قربانی کے جانور کاخون یا گوشت نہیں بلکہ قربانی دینے والے انسان کی نیت مطلوب ہوتی ہے جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کا قرب کا حاصل کیا جاتا ہے۔لہٰذا قربانی کا جانور لیتے وقت سے لے کر اسے اللہ کی راہ میں ذبح کرتے وقت یہی خیال ذہن نشین رہنا چاہیے کہ اس قربانی کا مقصد صرف رضائے الٰہی کا حصول ہے۔ کیونکہ جو جانور اللہ کی رضا کے لیے ذبح کیا جاتا ہے اس کے خون کا قطرہ زمین پر گرنے سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ کے ہاں قربانی قبول ہو جاتی ہے اس کی تائید درج ذیل حدیث مبارکہ سے ہوتی ہے۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:

’’اللہ تعالیٰ کو عید الاضحی کے دن قربانی سے بڑھ کر کوئی بھی عمل زیادہ محبوب نہیں ہوتا ہے ۔بے شک روزِ قیامت قربانی کے جانور کا ثواب، سینگوں، بالوں اور کھروں سمیت ملے گا اور قربانی کا خون زمین پر گرنے سے قبل ہی قربانی بارگاہ الٰہی میں قبول ہو جاتی ہے لہٰذا بخوشی قربانی کیا کرو۔‘‘(سنن ترمذی)

ایک تبصرہ چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اوپر تک سکرول کریں۔